کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 97
باب نمبر۱: پہلے باب کاعنوان ہے۔ ’دل اور زبان میں عدمِ موافقت‘ اس باب میں ، میں نے ٹھوس دلائل کے ساتھ یہ واضح کیا ہے کہ ۱۹۴۷ء سے قبل، اگرچہ پرویز صاحب قرآنِ مجید کے ساتھ حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور کتاب اﷲ کے ساتھ، سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتے رہے ہیں ، مگر اس دور میں بھی،ان کی زبان و قلم، ان کے دل کی رفیق نہ تھی۔ وہ جو کچھ اپنے لسانِ قلم سے پیش کررہے تھے، وہ اُن کا قلبی عقیدہ نہ تھا اور جو کچھ فی الواقعہ عقیدۃً ان کے قلب میں تھا، وہ اسے مصلحتاً مکتوم و مخفی رکھنے پر مجبور تھے۔ وہ حدیث ِرسول اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو حجت و سند نہ مانتے ہوئے بھی جس مجبوری کے تحت ان کا نام لے رہے تھے، اسے بھی اس باب میں واضح کردیا گیا ہے۔ اور یوں ’مفکر ِقرآن‘ صاحب، قلب و زبان کی اس مغایرت کے باعث، اُس زمانے میں بھی، جادۂ کذب و زُور پرگامزن تھے۔ باب نمبر۲: دوسرے باب میں (جس کاعنوان ’خارزارِ تضاداتِ پرویز‘ہے) میں نے تفصیل سے یہ واضح کیا ہے کہ ان کی نگارشات ، تضادات و تناقضات سے اٹی پڑی ہیں ۔ (الف) اس وسیع خار زارِ تضادات میں سے دس مثالیں اس بات کو واضح کردیتی ہیں کہ تقسیم برصغیر سے قبل اور بعد میں ان کے موقف میں صریح تضادات اور واضح تناقضات پائے جاتے ہیں ۔ ان دس مثالوں میں سے کسی ایک مثال پر بھی، مقالہ نگار کو اعتراض یاتردید کی جرأت نہیں ہوسکی۔ الحمداللّٰه علی ذٰلک (ج) اس کے بعد پرویز صاحب کے اُن پانچ تضادات کو پیش کیاگیا ہے جو ان کی ۱۹۴۷ء کے بعد کی نگارشات میں موجود ہیں ، ان میں سے تین تضادات پراعتراض کی کوئی گنجائش مقالہ نگار کونہ مل سکی۔ البتہ دو تضادات پر اُنہوں نے اعتراض فرمایاہے … دو اعتراضات آخری پانچ امثلۂ تضادات میں سے تیسری اور چوتھی مثال پر مقالہ نگار کے اعتراض کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے : زیر اعتراض پہلا تضاد یہ ہے کہ طلوعِ اسلام کے ایک مقام پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب ِوحی قرار دیا گیا ہے اور دوسرے مقام پر اُن کے کاتب ِوحی ہونے کی نفی کی گئی ہے۔