کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 96
جون۲۰۰۶ء میں ظاہر ہواہے۔ اس گروہ کے متعلق میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’مجھے یہ بھی پیشگی اندازہ ہے کہ اس کتاب کے مواد کے بارہ میں وابستگانِ طلوعِ اسلام کی طرف سے یہ کہا جائے گا(جیساکہ یہ اکثر کہا کرتے تھے) کہ پرویز صاحب (یاطلوعِ اسلام) کی عبارت کوتوڑ مروڑ کر لکھا گیا ہے۔‘‘[1] میرا یہ اندازہ بھی سو فیصد درست ثابت ہوا ، اورمقالہ نگار ٹھیک وہی کچھ لکھتے ہیں جس کی مجھے توقع تھی، وہ فرماتے ہیں : ’’پرویز صاحب یاطلوعِ اسلام کے اقتباسات توڑ مروڑ کر، اور سیاق و سباق سے علیحدہ کرکے پیش کئے جاتے ہیں ۔‘‘[2] حالانکہ جہاں میں نے یہ پیشگی اندازہ رقم کیا تھا، وہیں اس کے متصل ہی میں نے یہ بھی عرض کردیا تھاکہ ’’جو شخص یہ بات کہے، اس سے کہئے کہ جو اقتباسات اور حوالے اس کتاب میں شائع کئے گئے ہیں ، وہ ان سے متعلقہ کتب و مجلات کو لے آئے اور اسکے بعد آپ کو بتائے کہ کہاں الفاظ کو توڑا مروڑا گیا ہے او رکہاں عبارات کوغلط پیش کیا گیا ہے۔ آپ اسکا شدت سے مطالبہ کیجئے آپ دیکھیں گے کہ وہ اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کوئی دلیل بھی پیش نہیں کرسکیں گے۔‘‘[3] اسی گروہ کے متعلق میں نے قیاساً یہ بھی لکھا تھاکہ ’’اس ٹولے کے افراد، کتاب میں موجود واقعات و دلائل کونظر انداز کرتے ہوئے اُلٹا یہ شور مچائیں گے کہ یہ پرویز صاحب کی کردارکشی ہے۔‘‘[4] مقالہ نگار کا پورامضمون ٹھیک اسی چیز کی تائیدکر رہا ہے جو اس گروہ کے متعلق میں نے قیاس کیا تھا۔ مندرجاتِ کتاب اورمقاماتِ تنقید اس ابتدائی تمہید کے بعد اب میں یہ واضح کرناچاہتاہوں کہ میری کتاب کے گیارہ ابواب میں سے کس باب کے کن مقامات پر، مقالہ نگار نے کیا اعتراضات کئے ہیں :