کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 95
2. دوسرا وہ گروہ جوطلوعِ اسلام کے لٹریچرکا سطحی اور یک طرفہ مطالعہ کرکے، اس کے بارے میں اچھی رائے قائم کرکے مطمئن ہوچکا ہے، وہ اس کتاب کو پڑھ کر تذبذب کے دوراہے پر کھڑا سوچ رہا ہوگا کہ کون سا راستہ صحیح ہے اور کون سا غلط؟ ایک طرف اگر وہ پرویز صاحب کی شگفتہ تحریر سے متاثر ہوکر’ مفکر ِقرآن‘ کے خلوصِ قلب کا قائل ہوچکا ہے تو دوسری طرف اس کتاب کاحقائق پر مشتمل مواد اُس کی اِس عقیدت پرسخت چوٹ لگائے گا جو پرویز صاحب کے لئے اس کے سویدائے قلب(دل کاسیاہ نشان)میں پیداہوچکی ہے۔ تذبذب کے اس دوراہے پر کسی بھی راستے پر پیش قدمی کرنے سے پہلے اگر اس نے تحقیق سے کام لیا اور جن کتب و رسائل کے حوالے اس کتاب میں دیئے گئے ہیں ، ان تک رسائی پاکر حقیقت ِحال کو جاننے کی کوشش کی، تو وہ مصنف کی تحقیق کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا اور بالآخر کرگسوں کی صحبت میں پلنے والا یہ فریب خوردہ شاہین اپنے اصل مقام کی طرف پلٹ کر راہ ورسم شہبازی اختیار کرنے پرمجبور ہوگا۔ 3. تیسرا ٹولہ ان لوگوں پرمشتمل ہے جو سالہا سال سے طلوعِ اسلام کے لٹریچر کا یک رُخا مطالعہ کرکے ہر اس جماعت اور ہر اُس فرد کے خلاف اپنے سینوں میں کینہ و کدورت پیداکرچکے ہیں جس کے خلاف ایسا کرنا طلوعِ اسلام کا نصب العین بن چکا ہے۔ یہ لوگ، اپنے مسلک کی حمایت اور اپنے فکری مخالفین کی مخالفت میں ، اپنے قلوب و نفوس میں شدید حمیت ِجاہلیہ، سنگین تعصب اور سخت ضد پیدا کرچکے ہیں ۔ ایسے لوگوں پر اس کتاب کے مطالعہ کا وہی اثر ہوگا جو نزولِ قرآن نے مشرکین ِ عرب کی ذہنیتوں پرکیاتھا : ﴿وَلاَ یَزِیْدُالظّٰلِمِیْنَ اِلاَّخَسَارًا﴾اس کتاب کے مطالعہ سے ان کی چیخیں نکل جائیں گی، وہ چلائیں گے، شور مچائیں گے، سب و شتم اور دشنام طرازی پر اُتر آئیں گے او ریہ کہہ کر آسمان سر پر اٹھا لیں گے: دیکھنا، لینا، پکڑنا، دوڑنا، جانے نہ پائے لے چلا، میری شکیبائی٭ وہ کافر لے چلا[1] اس آخری ٹولے نے بھی پہلے دو طبقوں کی طرح، ٹھیک وہی ردّعمل ظاہر کیا ہے، جس کی مجھے توقع تھی، چیخنے چلانے، شور مچانے اور سب و شتم پر اُتر آنے کا یہ ردّعمل، طلوع اسلام