کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 94
تحقیق و تنقید پروفیسر حافظ محمد دین قاسمی ’ غلام احمدپرویز؛ اپنے الفاظ کے آئینے میں ‘ اور طلوعِ اسلام سالِ رواں کے پہلے ماہ کے پہلے دن، میری ایک تصنیف … جناب غلام احمد پرویز، اپنے الفاظ کے آئینے میں … منظر عام پر آئی۔ ۳۱/ مارچ۲۰۰۶ء کو ہفت روزہ ’فرائیڈے اسپیشل‘(کراچی) نے،اور ۱۶تا۳۱/مارچ کے پندرہ روزہ ’انکشاف‘ (اسلام آباد)نے اس کتاب پر تبصرہ کیا۔ اِن دونوں کے علاوہ کسی اخبار او ررسالہ میں اس پر تبصرہ تاحال پیش نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ ماہنامہ ’محدث‘ میں بھی جس میں میری نگارشات مسلسل چھپ رہی ہیں ،اس کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا۔ اس کے باوجود انگریزی محاورہ کے مطابق ’گرم کیک‘ کی طرح یہ کتاب خریداروں کے ہاتھوں میں پہنچتی رہی اور اب اس کی اشاعت ِثانیہ کا مرحلہ درپیش ہے۔ کتاب کی اس قدر مقبولیت پراللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس کے حضور سربسجود ہوں ۔ میری یہ خواہش تھی کہ کوئی اور ادارہ کتاب پرتبصرہ کرے یانہ کرے، لیکن طلوعِ اسلام کی طرف سے تبصرہ ضرور آناچاہئے۔ الحمدﷲ کہ میری یہ خواہش برآئی اور پانچ ماہ کے بعد جون ۲۰۰۶ء کے شمارہ میں ’تبصرۂ کتب‘ کے کالم میں نہیں ، بلکہ ’شمع اخیر شب‘ کے زیرعنوان مقالہ نگار نے تنقیدی تبصرہ رقم فرمایا ہے۔ اس کتاب کے حرف ِ اوّل میں ، میں نے یہ لکھا تھا کہ اس کی اشاعت پر تین مختلف طبقات کی طرف سے تین جداگانہ ردّعمل ظاہرہوں گے۔ اورمیری عین توقع کے مطابق، ٹھیک ایسا ہی ہوا۔ تینوں طبقوں کے متعلق میں نے یہ لکھا تھا : ’’1. وہ طبقہ جوقرآن و سنت کی حجیت کا قائل ہے او ریہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اطاعت ِ خداوندی، اطاعت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر ممکن نہیں ہے، وہ اسے اپنے دل کی آواز سمجھے گا او ر ذہن و دماغ اور قلب وروح کی پوری آمادگی کے ساتھ مصنف کی تائید کرے گا اور اس کے ہم قدم و ہم رکاب رہیگا۔