کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 88
دار الافتاء مولانا مفتی حافظ ثناء اللہ خاں مدنی شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ آسمان وزمین کی تخلیق کے دن ؟ معراج کی رات قلم کی آواز؟ دانتوں کی صفائی کے بارے میں چند سوالات نماز میں سر ڈھانکنا ؟ ٭ سوال:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاسر ڈھانکنے کے سلسلہ میں کیامعمول تھا؟کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ننگے سر نماز پڑھتے تھے یا سر ڈھانک کر؟ان ہر دو اعمال میں سے کون سا عمل سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب ہے یااجر و ثواب کے لحاظ سے کون سا عمل دوسرے سے بڑھ کر ہے؟ (ماسٹر لال خان ) جواب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے دونوں طرح نماز پڑھنا ثابت ہے : أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم صلی في ثوب واحد قد خالف بین طرفیہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی کپڑا اوڑھ کر نماز پڑھی جس کے پڑھنے کی صورت یہ تھی کہ کپڑے کے دونوں سرے اُلٹے کرکے دوسرے کندھے پر ڈال لیے۔‘‘ (صحیح بخاری:۳۴۱) اس سے صاف ظاہر ہے کہ سر ننگا تھا۔ نیزبلوغ المرام باب شروط الصلاۃ میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب کپڑا فراخ ہو تو اوڑھ لے، یعنی صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی روایت میں اوڑھنے کا طریقہ بتایا ہے کہ کپڑے کی دونوں طرفین خلاف طور پر کرے۔(متفق علیہ) یہ قولی حدیث کی مثال ہے ،جبکہ پہلی حدیث کا تعلق عمل سے ہے۔ اس بارے میں وارد تمام احادیث کی روشنی میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ سرڈھانک کر یا ننگے سر نماز پڑھنے کاجواز ہے، کسی ایک جانب کو ترجیح دینا بلا دلیل ہے، تاہم شریعت میں عورت کے لئے سرڈھانکنا ضروری قرا ردیا گیا ہے۔ ننگے سر اس کی نماز نہیں ہوتی۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے: أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال لا یقبل اللّٰه صلاۃ حائض إلا بخمار (بلوغ المرام: باب شروط الصلاۃ) ’’اللہ تعالیٰ بالغہ عورت کی نماز بلااوڑھنی کے قبول نہیں کرتا۔‘‘