کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 86
لٹریچر بھی تمام کا تمام صحیح اور قابل استناد نہیں ہے ۔ چنانچہ اُستاذ عباس محمود عقاد نے لکھا ہے کہ ’’جاہلیت کے عربی ورثہ سے استدلال کرنے کا مطلب یہ قطعاً نہیں ہے کہ عرب کے شعراء وخطبا اور قبائل کی طرف منسوب عربی زبان کا یہ جاہلی ورثہ تمام کا تمام صحیح ہے، لہٰذا اس کے تمام تر ذخیرہ کو قابل استدلال قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ۔ ۔ عربی ادب کا وہ ذخیرہ جو محفوظ اور ماثور ہے (قرآن اور احادیث ِصحیحہ )وہ تو یقینا حجت ہے، لیکن جو اس کے علاوہ ہے،اگر وہ صحیح اور متفق علیہ کلام عرب کے خلاف ہو تو اس کا انکار کیا جا سکتا ہے ۔ ‘‘ (مقدمہ الصحاح ،ص ۱ ۔۴) احمد عبد الغفور عطار ’ الصحاح از جوہری ‘کے مقدمہ میں فرماتے ہیں : ’’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جاہلی ادب غلطی اور لحن سے محفوظہے تو وہ غلطی پر ہے، کیونکہ اس میں لحن اور غلطیاں موجود ہیں ۔جاہلی شعری ادب میں ایسے اشعار بھی ہیں جو قواعد ِ نحو کے سراسر خلاف ہیں ۔ ‘‘ (مقدمہ الصحاح، ص ۱۵) یہ درست ہے کہ نحو و صرف کے قواعد کی بنیاد پر قدیم عربی لٹریچر کو ردّکرنا صحیح نہیں ہے ، لیکن وہ کلامِ عرب جو محفوظ و ماثور عربی ورثہ اور جاہلی ادب کے غالب شواہد کے خلاف ہو ،اسے قطعاً استدلال کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ جب جاہلی ادب کلی طور پر استدلال کی بنیاد نہیں بن سکتا تو پھر مولدین اور بعد کے شعراء کا وہ کلام جو قرآن ، احادیث ِصحیحہ کے ساتھ ساتھ جاہلی ادب کی تراکیب و مفردات اور مسلمہ قواعد نحویہ کے بھی خلاف ہو، اسے استدلال کی بنیاد بناناکیسے روا ہو سکتا ہے ؟ کیونکہ یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ بعد کا عربی لٹریچرغیر عرب اقوام کے عرب اقوام کے ساتھ اختلاط کی وجہ سے عجمی آمیزش سے محفوظ نہیں رہا ۔ یہی وجہ تھی کہ ائمہ لغویین کو معاجم کی تالیف کے دوران اصل ابناے عرب سے فصیح عربی زبان کی تلاش میں بادیہ پیمائی کرنا پڑی ۔ اس سے اس حقیقت کی واضح تائید ہوتی ہے کہ لولاک کی ترکیب خالص عجمی ترکیب ہے جو وضاعین حدیث کی کارستانی ہے اور ایسی غیر فصیح، قواعد ِلغت اورکلامِ عربیہ کے خلاف عبارت أفصح العرب زبانِ نبوت سے صادر نہیں ہو سکتی۔ ان احادیث کے پس پردہ عقائد کی خرابی درحقیقت ان جیسی تمام احادیث کے پس پردہ ان واضعین حدیث کا مقصد اپنے اس گمراہ