کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 85
البتہ بعض متاخرین نے اس ترکیب کو استعمال کیا ہے، مثلاً قصیدہ بردہ میں بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شعر ہے : وکیف تدعو إلی الدنیا ضرورۃ من لولاہ لم تخرج الدنیا من العدم لیکن متاخرین میں سے ہونے کی وجہ سے ان کا کلام لغت ِعربی میں استدلال کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا،چنانچہ لغت کے بہت بڑے امام ابو منصور محمد بن احمد بن ازہر الازہری اورلغت ِادب میں یکتاے روزگار امام جوہری ربیعہ الرقی کے ایک شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : لیس قول ربیعۃ بحجۃ إنما ہو مولد (الصحاح ۱/۲۵۵ زیر مادّہ شتت) ’’ربیعہ چونکہ مولدین شعرا میں سے ہے ، لہٰذااس کا یہ شعر حجت نہیں بن سکتا۔‘‘ جب مولدین (دورِ بنو اُمیہ اور بنو عباس کے شعرا )کا کلام علماے لغت کے نزدیک دلیل نہیں بن سکتا تو محمد بن سعید بوصیری مصری رحمۃ اللہ علیہ ( ۶۰۸ تا ۶۹۶ھ)جو ساتویں صدی ہجری کے شاعر ہیں ، ان کا کلام کس طرح حجت ہو سکتا ہے ؟ ٭ نیز یہ ترکیب نحوی قواعد کے بھی خلاف ہے۔ الفیۃ ابن مالک میں ہے: ’’و’لولا‘ و’لوما‘ یلزمان الابتدائ‘‘ اس کی شرح میں ابن عقیل رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں : فلا یدخلان إلا علیٰ المبتداء ویکو ن الخبر بعدہما محذوفا ’’لولااورلوماہمیشہ مبتدا پر داخل ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان کی خبر وجوباً حذف ہوتی ہے۔ ‘‘ (شرح ابن عقیل: ۲/۵۵) اور’کاف ضمیر‘ ہمیشہ منصوب یا مجرور متصل استعمال ہوتی ہے اور نحو کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ ضمیر متصل کبھی مبتدا نہیں بن سکتی۔ابن عقیل لکھتے ہیں : فالمتصل:ہو الذي لا یبتدأ بہ کالکاف (أیضًا) ’’ ضمیر متصل وہ ہوتی ہے جو مبتدانہ بن سکے ، مثلاً کاف۔‘‘ اورلولاک میں ’کاف ضمیر ‘نہ تو متصل استعمال ہوئی ہے اور نہ ہی مبتدا بننے کی اہل ہے، لہٰذا قاعدہ کے صریح خلاف ہے ۔ اوریہ حقیقت ہے کہ وہ کلام جو محفوظ و ماثور عربی زبان،مسلمہ نحوی قواعد اور جاہلی عربی لٹریچرکے غالب شواہد کے خلاف ہو، وہ قابل ردّ ہے کیونکہ متاخرین کا کلام توکیا قدیم اور جاہلی