کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 84
کی وجہ سے پیدا کی گئی ہے ، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا ۔‘‘(تفہیم المسائل ۳/۶۳)
احناف کے نزدیک ضعیف حدیث تودرکنار صحیح خبر بھی عقائد میں حجت نہیں
حضرت آدم اور کائنات کی تخلیق کوتخلیق ِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مرہونِ منت قرار دینا خالصتاً عقائد کا مسئلہ ہے جس کے ثبوت کے لئے نص متواتر یا کم از کم سنت ِصحیحہ کا ہوناضروری ہے،بلکہ احناف اور معتزلہ وغیرہ کے نزدیک ضعیف حدیث تو درکنار صحیح خبر واحد بھی عقائد میں حجت نہیں ہے۔ لیکن افسوس کہ یہاں ضعیف کی شدید ترین قسم موضوع روایات سے استدلال کرتے ہوئے ان پر گمراہ کن نظریات کی بنیاد کھڑی کی جارہی ہے اور لفظ لولاک کو تحریر و تقریر میں برملا استعمال کیا جاتا ہے ۔اور حد یہ ہے کہ اسی نام سے ایک ماہانہ رسالہ ملتان سے شائع ہوتا ہے جو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا ترجمان ہے۔اس رسالہ کے منتظمین سے گزارش ہے کہ وہ مذکورہ بحث کی روشنی میں اپنے رسالہ کے نام پر نظر ثانی فرمائیں کیونکہ جس طرح احادیث وضع کرنا حرام ہے ، اسی طرح موضوع احادیث کی اشاعت بھی حرام ہے !
عربی قواعد کی رو سے
مذکورہ روایات کے من گھڑت ہونے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ عربی لغت لولاک کی ترکیب قبول کرنے سے ابا کرتی ہے۔ اگر کسی صحیح نص سے اس ترکیب کا وجود ثابت ہو جاتا تواسے حدیث ِصحیح باور کر کے اس کی بنیاد پر ہم تمام لغات ِعرب کوبالائے طاق رکھ کر اس ترکیب کو تسلیم کر لیتے، لیکن یہاں قرآن اور صحیح حدیث تو درکنار لغت ِعرب کی معروف لغات: الصحاح ازجوہری، کتاب العین از فراہیدی، الخصائص از ابن جنی ، القاموس المحیط از علامہ مجدالدین فیروزآبادی، مجمل اللغۃ از احمد بن فارس، اساس البلاغۃ از زمخشری ، لسان العرب از ابن منظور ، المنجد ، المعجم الوسیط اور قدیم عربی لٹریچرمیں بھی اس ترکیب کا وجود نہیں ہے،ہاں البتہ عربی لغت میں لولا أخرتني،لولا فضل ﷲ،لولا أنت وغیرہ کی تراکیب استعمال ہوئی ہیں ، یعنی اسم ظاہر یا ضمیر مرفوع کے ساتھ، مثلاً قرآن میں ہے: ﴿لَوْلَا أخَّرْتَنِيْ إلیٰ أَجَلٍ مُّسَمًّی﴾ اسی طرح حدیث میں ہے:(( اللھم لولا اللّٰه ما اھتدیتنا)) (بخاری:۴۱۰۴) ایک دوسری روایت میں (( اللھم لولا أنت ما اھتدینا)) (بخاری:۴۱۰۶)