کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 83
تراجعني أنت إلی الجنۃ قال بلیٰ، قال: فھو قولہ:﴿فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمَاتٍ﴾ (البقرۃ:۳۷) ’’حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی: اے میرے پروردگار! کیاتو نے مجھے اپنے دست ِ مبارک سے پیدا نہیں فرمایا؟ اللہ نے فرمایا: کیوں نہیں ؟ عرض کیا: کیا تو نے مجھ میں روح نہیں پھونکی تھی ؟ اللہ نے فرمایا: کیوں نہیں ، عرض کیا : کیا تو نے مجھے اپنی جنت میں جگہ نہیں دی تھی؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیوں نہیں ۔ عرض کیا: کیا تیری رحمت تیرے غضب پر غالب نہیں ہے؟ فرمایا: ہاں ایسے ہی ہے۔ عرض کیا: اگر میں توبہ کرلوں اور راہِ راست پر آجاؤں تو کیا تو مجھے جنت کی طرف لوٹائے گا؟ اللہ نے فرمایا:کیوں نہیں اور یہی مفہوم ہے اللہ کے فرمان: ﴿فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ﴾ کا۔‘‘ (تفسیر طبری ۱/۲۴۳ ،تفسیر ابن کثیر۱/۸۲، مستدرک حاکم۲/۵۹۴) ابن عباس رحمۃ اللہ علیہ کے مذکورہ بالا قول کو امام حاکم، رحمۃ اللہ علیہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اورعلامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ نیز یہ بات واضح رہے کہ ابن عباس رحمۃ اللہ علیہ کی یہ تفسیر حدیث مرفوع کا درجہ رکھتی ہے ،کیونکہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ کا ایسے اُمورِ غیبیہ کے متعلق خبر دینا جس میں رائے اوراجتہاد کا دخل نہ ہو محدثین کے نزدیک ’مرفوعِ حکمی‘ کا درجہ رکھتا ہے ۔ بعض علما نے کہا ہے کہ﴿فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمَاتٍ ﴾سے مراد یہ آیت ہے : ﴿قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أنْفُسَنَا وَإنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (تفسیر المنار از علامہ رشیدرضا مصری،ص۲۷۹) بقول شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں تفاسیر کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے، بلکہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل اورتتمہ ہیں ۔ (تفصیل کیلئے شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب:التوسل أنواعہ وأحکامہ، ص۱۰۲تا ۱۱۳) معروف حنفی عالم مولانا گوہررحمن رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس طرح کی تمام روایات کو لفظاًو معناً موضوع قرار دیتے ہوئے اُنہیں خلاف ِقرآن قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں : ’’جب ہم درایت اور مفہوم کے اعتبار سے ان روایات پر غور کرتے ہیں تو ان کا مضمون ومفہوم قرآن کے خلاف نظر آرہا ہے ۔ قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِنس وجن کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور انبیاء ورسل کو عبادت کے طریقے سکھانے اور لوگوں کو اللہ کی بندگی کی دعوت دینے کے لئے بھیجا گیا ہے ،لیکن یہ روایات کہتی ہیں کہ ساری دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم