کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 82
ان روایات کا قرآن کریم سے تعارض
اگر کوئی روایت بہ سند ِصحیح ثابت ہو جائے تو وہ قرآن مجید کے خلاف نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ قرآنِ مجید کی طرح حدیث بھی وحی ہے اوروحی چونکہ اللہ کی طرف سے آتی ہے ،اس لیے اللہ تعالیٰ کے کلام میں باہمی تناقض کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔ جب کہ جھوٹی احادیث وضع کرنے والوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کی اکثر احادیث قرآن مجید کے صریح خلاف نکلتی ہیں ۔کچھ یہی معاملہ زیر بحث روایات کا بھی ہے کیونکہ یہ قرآنِ کریم کی واضح نص کے خلاف ہیں ۔ ان احادیث کا مدعا یہ ہے کہ کائنات ، جنت وجہنم اور آدم و بنی نوعِ انسان کی تخلیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق کی مرہونِ منت ہے،لیکن یہ نظریہ قرآنِ کریم سے صریح متصادم ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کا مقصد اور حکمت یہ بیان فرمائی ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإنْسَ إلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ﴾(الذاریات:۵۶)
’’ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔‘‘
اسی طرح وہ حدیث جس میں یہ ذکر ہواہے کہ’’ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا توسل پکڑنے کی وجہ سے معاف فرمایاتھا۔‘‘کے موضوع اور من گھڑت ہونے کی تائیدبھی اس بات سے ہوتی ہے کہ یہ قرآنِ کریم کے واضح حکم سے متصادم ہے۔ کیونکہ قرآنِ مجید میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ذاتِ الٰہی کے توسل کے باعث معاف کیا تھا اور توسل کے الفاظ بھی اللہ تعالیٰ نے خود ہی سکھائے تھے۔ چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿فَتَلَقّٰی آدَمُ مِن رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ إنَّہٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ﴾(البقرۃ:۳۷)
’’پھر آدم علیہ السلام نے اپنے ربّ سے چند کلمات حاصل کئے، جن سے اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی، بلا شبہ وہی توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی جو تفسیر فرمائی ہے، وہ بھی اس حدیث کے بطلان کو واضح کرتی ہی۔ ان سے یہ تفسیر منقول ہے:
قال: أي رب ألم تخلقني بیدک؟ قال:بلیٰ،قال: ألم تنفخ فيّ من روحک؟ قال:بلیٰ، قال: أي رب ألم تسکني جنتک؟ قال: بلیٰ، قال: ألم تسبق رحمتک غضبک؟ قال: بلیٰ قال:أرأیت إن تبتُ وأصلحتُ،