کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 81
اور اس کے بعد بطورِ مثال انہوں نے اسی عبدالرحمن بن زید کی مذکورہ موضوع روایت کا حوالہ دیا ہے ۔ امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے جس پرحافظ ابن عبدالہادی رحمۃ اللہ علیہ نے حیرت کا اظہار کیا ہے ۔ اور اس حدیث کو موضوع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث کو صحیح کہناان کا صریح تناقض ہے۔(الصارم المنکی،ص ۳۲بحوالہ التوسل:انواعہ واحکامہ ،ص ۱۰۹) محدثین کی ان توضیحات سے جہاں مستدرک حاکم کاصحیح مقام متعین ہوتا ہے، وہاں یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ حدیث دیگر تمام علما سمیت امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی موضوع ہے کیونکہ وہ خودعبدالرحمن بن زید کو ضعیف اور ناقابل اعتبار قرار دے چکے ہیں ۔ چنانچہ امام ناصرالدین البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’جو شخص امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کی ساری کلام پر غور کرے گا، اس پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ حدیث خود امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی موضوع ہے۔‘‘ (التوسل :انواعہ واحکامہ، ص ۱۰۵) ساتویں روایت: (( لولا محمد ما خلقتُ آدم ولولا محمد ما خلقتُ الجنۃ والنار ولقد خلقت العرش علی الماء فاضطرب فکتبتُ علیہ لا إلہ إلا اللّٰه محمد رسول اللّٰه فسَکَنَ)) ’’اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں آدم کو پیدا نہ کرتا اور اگرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں جنت و جہنم کو پیدا نہ کرتا۔ میں نے عرش کو پانی کے اوپر پیدا کیا تو وہ ہلتا تھا مگر جب میں نے اس پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا تو وہ ٹھہر گیا۔‘‘ اس روایت کو بھی امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوف ذکر کرنے کے بعد صحیح کہا ہے،لیکن امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے مستدرک کے ذیل میں اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے ۔ (المستدرک مع تلخیص الذہبي ۲/۶۱۵) چنانچہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عمرو بن أوس یجہل حالہ أتی بخبر منکر أخرجہ الحاکم في مستدرکہ وأظنہ موضوعًا ’’عمرو بن اوس مجہول الحال راوی ہے اور اس نے ایک منکر روایت بیان کی ہے جسے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے مستدرک میں ذکر کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے۔ ‘‘