کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 80
دیا ہے۔ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :وہ لاعلمی میں احادیث کو بدل دیا کرتا تھا، حتیٰ کہ اس نے متعدد مرسل روایات کو مرفوع اورموقوف روایات کومسند بنا دیاجس کی وجہ سے یہ محدثین کے نزدیک متروک قرار پایا۔ اس جیسی احادیث کو صحیح قرار دینے کی وجہ سے محدثین نے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ پر سخت تنقیدکی ہے اور کہا ہے کہ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ ایسی روایات کو بھی صحیح قرار دے دیتے ہیں جو ماہرین حدیث کے نزدیک موضوع اور من گھڑت ہیں ۔ اسی لئے حدیث کے ماہرین علما تنہا امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے کسی حدیث کو صحیح قرار دینے پر اعتماد نہیں کرتے۔‘‘ (القاعدۃ الجلیۃ،ص۸۹) نیز امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا تساہل بھی محدثین کے نزدیک ایک مسلمہ امر ہے۔علامہ بدر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حقیقت کی نشاندہی ان الفاظ میں کی ہے: لاریب أن في المستدرک أحادیث کثیرۃ لیست علی شرط الصحۃ بل فیہ أحادیث موضوعۃ شان المستدرک بـإخراجہا فیہ (تذکرۃ الحفاظ ۳/۱۰۴۲) ’’بلاشبہ المستدرک میں بکثرت ایسی احادیث موجود ہیں جوصحیح حدیث کی شرط کے مطابق نہیں بلکہ اس میں موضوع احادیث بھی ہیں جن کا تذکرہ مستدرک پر ایک دھبہ ہے۔‘‘ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے عبد الرحمن بن زید کے بارے خود امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے جس سے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کا اس سلسلہ میں تساہل اور تناقض واضح ہوتا ہے، فرماتے ہیں : ’’ یہ شخص اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کیا کرتا تھا۔ ‘‘ (تہذیب التہذیب۶/۱۷۹) شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کو متناقض قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خود امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت میں موجود راوی عبدالرحمن کی ایک دوسری روایت کو غیر صحیح کہا ہے اور فرمایا ہے کہ شیخین نے عبدالرحمن بن زید کو ناقابل حجت قرار دیا ہے۔ نیزخود امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے عبدالرحمن بن زید کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے۔ امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے اس تساہل اور تناقض کی وجہ یہ ذکر کی ہے کہ ’’ مستدرک کی تصنیف کے وقت ان کے حافظے میں فرق آگیا تھا، اس کی دلیل یہ ہے کہ اُنہوں نے رواۃ کی ایک کثیر تعداد کو اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے اور ان سے استدلال کو ممنوع قرار دیا ہے ، لیکن اپنی کتاب مستدرک میں خود اُنہیں سے روایات نقل کی ہیں اور اُنہیں صحیح قرار دیا ہے۔ ‘‘ (لسان المیزان ۵/۲۳۳)