کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 79
حافظ نور الدین ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس حدیث میں ایسے راوی ہیں جن کو میں نہیں جانتا۔‘‘(مجمع الزوائد ۸/۲۵۳) اس حدیث کے ضعیف ہونے کی بنیادی وجہ اس کا راوی عبدالرحمن بن زید ہے جو تمام محدثین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے ۔ چنانچہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’ عبدالرحمن بن زیدکو امام احمد بن حنبل ،علی بن مدینی ، ابوداود ، ابوزرعہ ، ابو حاتم رازی ، امام نسائی ، امام دار قطنی رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے اور امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے : یہ شخص لاعلمی میں احادیث کو بدل دیا کرتا تھا حتیٰ کہ اس نے بے شمار مرسل روایات کو مرفوع اور موقوف روایات کو مسند بنا دیا ،جس کی وجہ سے یہ محدثین کے نزدیک متروک قرار پایا ۔‘‘ (کتاب الضعفاء والمتروکین ۲/ ۹۵) امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ ، علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ سے عبدالرحمن بن زید کا ضعیف ہونا نقل کیا ہے۔ (میزان الاعتدال ۲/۵۶۴) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد علما سے عبدالرحمن بن زید کی تضعیف نقل کرنے کے بعد ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’تما م محدثین کا اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔ ‘‘ (تہذیب التہذیب ۶/۱۷۹) امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد اگرچہ اسے صحیح الاسناد کہا ہے، لیکن محدثین نے ان کی اس بات کو غلط اور ان کا صریح تناقض قرار دیتے ہوئے، اُنہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ کے اس حدیث کو روایت کرنے پر سخت تنقید کی گئی ہے کیونکہ انہوں نے بذاتِ خود اپنی کتاب المدخل إلی معرفۃ الصحیح من السقیم میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم کے متعلق یہ صراحت کی ہے کہ یہ اپنے باپ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا۔ غور کرنے سے اس فن کے ماہرین پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اس حدیث کا دارو مدار اس عبدالرحمن بن زید پر ہے اور میں کہتا ہوں کہ عبدالرحمن بن زید بن اسلم سب محدثین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف ہے کیونکہ وہ بہت غلطیاں کرتا تھا۔ اسی بنا پر امام احمد بن حنبل، ابوزرعہ، ابوحاتم، امام نسائی، امام دارقطنی رحمہم اللہ اور دیگر متعدد محدثین نے اسے ضعیف قرار