کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 78
مرفوعاً مروی ہے : حدثنا أبو سعید عمرو بن محمد بن منصور العدل ثنا أبو الحسن محمد بن إسحٰق بن إبراہیم الحنظلي ثنا أبو الحارث عبد اللّٰه بن مسلم الفہري ثنا اسمٰعیل بن مسلمۃ أنبأ عبد الرحمن بن زید بن أسلم عن أبیہ عن جدہ عن عمر بن الخطاب قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( لما اقترف آدم الخطیئۃ قال: یارب أسالک بحق محمد لما غفرت لي فقال: یا آدم وکیف عرفتَ محمدًا ولم أخلقہ؟ قال:یا ربّ لمَّا خلقتَني بیدک ونفختَ فيَّ من روحک، رفعتُ رأسی فرأیتُ علی قوائم العرش مکتوبًا: لا إلہ إلا اللّٰه محمد رسول ﷲ، فعلمتُ أنک لم تضف بـإسمک إلا أحبّ الخلق فقال: غفرتُ لک ولولا محمد لما خلقتُک)) (مستدرک حاکم ۲/۶۱۵،المعجم الصغیر للطبراني۲/۱۸۲، دلائل النبوۃ للبیقہي۵ /۴۸۹) ’’جب حضرت آدم علیہ السلام غلطی کے مرتکب ہوئے تو اُنہوں نے یہ دعا کی: اے پروردگار! میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے تجھ سے مغفرت کا خواستگار ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا: اے آدم علیہ السلام ! تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کیسے جانتے ہو، حالانکہ میں نے تو اسے ابھی پیدا ہی نہیں کیا؟ عرض کیا: اے اللہ! جب تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور مجھ میں روح پھونکی تو میں نے اپنا سراُٹھایا اور عرش کے پایوں پر لکھا ہوا دیکھا تھا: لا إلہ إلا اللّٰه محمد رسول ﷲ تو میں سمجھ گیا کہ جس کو تو نے اپنے نام کے ساتھ ملا رکھا ہے، کائنات میں اس سے برتر کوئی نہیں ہوسکتا تو اللہ نے فرمایا: میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا۔‘‘ اس روایت کو علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ ، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ، امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ ، حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ ، ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن الہادی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ علما کی اکثریت نے ضعیف ،موضوع اور ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : موضوع وعبدالرحمن واہ ’’یہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے اوراس کا راوی عبدالرحمن انتہائی ضعیف ہے اور میں اس کے دوسرے راوی عبد اللہ بن مسلم فہری کے بارے میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے؟‘‘(ذیل المستدرک للذہبی ۲/۱۶۵) حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے میزان الاعتدال میں فہری کا تذکرہ کیا ہے اور اس کی یہی مذکورہ روایت ذکر کرنے کے بعد اسے باطل قرار دیا ہے۔ (میزان الاعتدال ۲/۵۰۴)