کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 77
کیایہ روایات مفہوم کے لحاظ سے درست ہیں ؟:جہاں تک اس حدیث کے معنی کودرست قرا ردینے کا تعلق ہے تو امام عجلونی رحمۃ اللہ علیہ اور ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے ۔چنانچہ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ ان کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
الجزم لصحۃ معناہ لا یلیق إلا بعد ثبوت ما نقلہ عن الدیلمي وھذا مما لم أر أحداً تعرّض لبیانہٖ وأنا فإن کنتُ لم أفق علی سندہ فإني لاأتردّد في ضعفہ وحسبنا في التدلیل علی ذلک تفرد الدیلمي بہ، وأما روایۃ ابن عساکر فقد أخرجھا ابن الجوزي أیضًا في حدیث طویل عن سلمان مرفوعًا وقال إنہ موضوع وأقرہ السیوطی في اللآلي ۱/۲۷۲، وانظر الموضوعات۱/۲۸۸۔۲۹۰(سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ،رقم: ۲۸۲)
’’اس روایت کے معنی کو صحیح قرار دینا اسی صورت میں ہی درست ہوسکتا ہے ،جب دیلمی کی (مذکورہ) روایت [نمبر۴] صحیح ثابت ہوجائے۔ جہاں تک میں نے دیکھاہے وہ یہ ہے کہ کسی نے ان کے اس قول سے تعرض نہیں کیا اور میں اگرچہ دیلمی کی اس روایت کی سند سے واقف نہیں ہوسکا، لیکن مجھے اس کے ضعیف ہونے میں ذرا بھر تردّد نہیں ہے اور اس کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ اس میں دیلمی متفرد ہیں اور جہاں تک ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کا تعلق ہے تو اس کو ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طویل حدیث میں سلمان سے مرفوع روایت کیا ہے اور اسے موضوع قرار دیا ہے اور سیوطی نے بھی الُّلآلي۱/۲۷۲میں ان کی تائید کی ہے، دیکھئے: الموضوعات ۱/۲۸۸ تا۲۹۰ ‘‘
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی اس وضاحت سے جہاں دیلمی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کی حقیقت واضح ہوگئی ہے، وہاں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ ان ضعیف اور موضوع روایات کی بنیاد پر امام عجلونی رحمۃ اللہ علیہ اور ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا لولاک کی روایت کے معنی کو درست قرار دیناصحیح نہیں ہے اور ان حضرات کا ایک موضوع روایت،جس کا تعلق ما بعد الطبیعات اُمور سے ہے، کے معنی کو بغیر کسی دلیل کے صحیح قرار دینا انتہائی تعجب انگیز ہے،بلکہ یہ مفہوم قرآنِ کریم کی صریح نصوص کے بھی خلاف ہے، جس کی وضاحت اگلے صفحات میں آرہی ہے۔
چھٹی روایت: مندرجہ بالا حدیث سے ملتی جلتی ایک اورروایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے