کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 74
حدیث وسنت محمد اسلم صدیق٭ احادیثِ لَولَاکَ کا تحقیقی جائزہ ماہنامہ ’محدث‘ کے فروری 2004ء کے شمارہ میں محترمہ خالدہ امجد کا مضمون ’عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اُسوۂ حسنہ‘ کے صفحہ۶۳، سطر ۱۱ پر یہ عبارت ’’پاک و طاہر بیٹی کا نصیب صاحب ِلولاک کا نور کدہ ہی ہوسکتا ہے۔‘‘ میں لفظ لَوْلَاکَ جو ایک موضوع روایت کاجملہ ہے، غلطی سے نظر انداز ہوگیا تھا۔ محدث کے قاری جناب نثار احمد کھوکھر اور چند دیگر حضرات نے اس غلطی پر نشاندہی کی اور حدیث کی مکمل تحقیق شائع کرنے کی استدعا کی۔ مزید برآں مؤرخہ ۲۲/ مارچ ۲۰۰۴ء کے روزنامہ ’نوائے وقت‘ لاہور میں ’ضروری تصحیح‘ کے عنوان سے ایک خط شائع کیا گیا جس میں ’نوائے وقت‘ کے مستقل کالم ’نورِ بصیرت‘میں شائع شدہ حدیث لولاک کے بارے میں یہ وضاحت کی گئی کہ یہ حدیث موضوع ہے، اس کے جواب میں مدیر روزنامہ ’نوائے وقت‘ کو ایک خط لکھا گیا جو بعد میں بریلوی مکتب ِفکر کے ترجمان رسالہ ’نورالحبیب‘ (بصیرپور) اپریل ۲۰۰۴ء میں بھی شائع ہوا، جس میں اس حدیث کو مختلف حوالوں سے معناً درست ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔اس بحث کے تناظرمیں مناسب سمجھاکہ اس روایت کے بارے میں محدثین کا نقطہ نظر واضح کر دیا جائے۔ سب سے پہلے ہم روایاتِ ’لولاک‘ کی استنادی حیثیت واضح کریں گے۔اس کے بعد قرآن کریم کی صریح نصوص سے ان کے تعارض کی نشاندہی کریں گے۔ پھر اس بات کا جائزہ لیں گے کہ آیا عربی لغت میں لَولَاکَ کی ترکیب مستعمل ہے ؟اور آخر میں ہم ان احادیث کے پس پردہ عقیدہ کی خرابی کی نشاندہی کریں گے ۔ اِن شاء اللہ روایات لَولاک کی استنادی حیثیت لولاک کی ترکیب مختلف اسناد کے ساتھ کتب ِحدیث میں موجود ہے۔ مثلاً: پہلی روایت: أنبأنا عبد الوہاب بن المبارک ومحمد بن ناصر الحافظان وموہوب بن أحمد اللغوي وعمر بن ظفر المغازلي وعبد الخالق بن ٭ ریسرچ فیلو مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور