کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 73
صرف کرے۔ مزید برآں یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی آبادی کا ۶۰/ ۷۰ فیصد حصہ بنیادی تعلیم سے بھی آشنا نہیں ہے۔ ان لوگوں کو درست کلمہ بھی پڑھنا نہیں آتا، کجا یہ کہ وہ اپنے بچوں کی دینی تعلیم کی ضرورت پوری کرسکیں ۔
غور کریں ، اگر بنیادی تعلیم یعنی لکھنے پڑھنے اور حساب کتاب سکھانے کی ذمہ داری ان والدین کے سپرد کر دی جائے تو کتنے فیصد والدین اس کو نبھا سکتے ہیں ؟ پھر نا معلوم کیوں دینی علوم کو ہی اس قدر غیراہم قرار دے کر ایسی مضحکہ خیز تجویز پیش کی جاتی ہے۔
3. بچوں پر نصاب ونظامِ تعلیم کا کافی بوجھ پہلے ہی لاد دیا گیا ہے،بعض سکولوں کے اوقاتِ تعلیم انتہائی لمبے ہیں اور بعض بچے ویسے ہی بورڈنگ سکولوں میں رہائش پذیر ہیں ، ایسے ہی کھیلوں ، ویڈیو گیمز اورٹی وی پروگراموں نے انہیں اس قد رمصروف کررکھا ہے کہ ان کے پاس مزید تعلیم کے لئے فرصت ہی نہیں بچتی۔ ایسے حالات میں قومی نظام تعلیم کو بچوں کی تمام ضروریات کا کفیل ہونا چاہئے۔ترقی یافتہ دنیا میں تو اب سکول میں ہی بچے کو ہوم ورک بھی کروانے کو رواج دیا جارہا ہے اور ہمارے ہاں تعلیم کے ایک اہم ترین حصہ کو گھر کی مصروفیت اور ذاتی کاوش پرچھوڑا جارہا ہے۔ ایسی دو رنگی کیوں ہے ؟
4. مذہبی تعلیم کو حکومت کی سرپرستی سے نکال کر گھریلو بنیادوں پرپڑھانے کا نتیجہ فرقہ واریت کے خاتمے کی بجائے فرقہ واریت کے فروغ کی صورت میں برآمدہوگا۔ کیونکہ حکومت خود تو اپنی نگرانی میں مختلف اقدامات یا نصاب کے ذریعے فرقہ وارانہ رجحانات کو کم کرسکتی ہے لیکن والدین جن اساتذہ کو اپنے بچوں کی دینی تربیت کے لئے مقرر کریں گے، موجودہ حکومت اور غامدی صاحب کو تو پہلے ہی مساجدومدارس کے ان فضلا سے فرقہ واریت کے فروغ کا شکوہ ہے۔ اس مرحلے پر یہ دینی تعلیم دینے والے کیونکر یکدم انتہائی روا دار قرار پاجائیں گے؟
الغرض اس نوعیت کی بہت سی اوربھی وجوہات ہیں جن کی بنا پر تعلیم کے حوالے سے یہ دانشوری محض خوبصورت الفاظ کا ایک مرقع اور بلند خواہشات کا ایک خواب تو بن سکتی ہے، لیکن زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر اسے اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ جو حکومت اسے اختیا رکرے گی، ا س کے پیش نظر لازماً دینی تعلیم کا تدریجا ً خاتمہ ہی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اربابِ اقتدار اور ارباب دانش کی فکر ونظر کے زاویے درست فرمائے اور ہمیں اپنے دینی تقاضوں سے عہد ۂ برا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین! (حافظ حسن مدنی)