کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 71
رہنا چاہئے۔ قرآنی آیات اور فرامین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرے کے بعد اس موضوع پر مزید حیلہ جوئی کی گنجائش باقی نہیں رہتی، البتہ ایک آخری نکتہ یہ باقی رہتا ہے کہ جاوید احمد غامدی نے دینی تعلیم کو نظامِ تعلیم سے نکال کر انفرادی بنیادوں پر پڑھانے کا نظریہ پیش کیا ہے اور اسکی یہ توجیہ پیش کی ہے کہ اوّلاً: یہ والدین کی ذمہ داری ہے، ثانیاً: نصابِ تعلیم میں اسے داخل کرنے سے فرقہ واریت پیدا ہوتی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اخلاقیات کی تعلیم کو،جو تمام مذاہب کے ہاں مسلمہ ہے مختلف مذاہب کے حوالے کی بجائیمحض اخلاقیات کے طورپر پڑھایا جائے اورنظامِ تعلیم میں عقائد واحکام یاقرآنِ مجید وغیرہ کی تعلیم کو پرائمری کے بعد اختیار کیا جائے۔ جناب غامدی کا یہ موقف بھی ان کے سابقہ نظریات کی طرح کھوکھلا ہے جس کی گنجائش نہ تو شریعت کی نصوص سے ملتی ہے اور نہ ہی اس کی تائید عمل وتجربہ سے ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سفرمیں پیش آنے والے واقعہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں بنیادی عقائد سکھائے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی عمر رضی اللہ عنہ بن ابی سلمی کو کھانے کے مسائل کی تعلیم دینے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حکم صرف والدین کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ادا فرمایا۔ چونکہ دورِ خیرالقرون میں اس طرح کسی باقاعدہ نظامِ تعلیم کی مثال نہیں ملتی جو جملہ مسلمانوں کے لئے ہو، البتہ علومِ اسلامیہ میں رسوخ کے لئے اصحابِ صفہ اور ائمہ اسلاف کے درسِ حدیث و فقہ کا ضرور پتہ چلتا ہے لیکن ان ادوار میں بھی وہ لوگ جو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا اعلیٰ انتظام کرنا چاہتے تھے، وہ بعض اساتذہ کو مقرر کرکے ان کے ذریعے یہ مقصد پورا کیا کرتے۔ موجودہ دورمیں انہی اساتذہ کی جگہ ایک باقاعدہ نظامِ تعلیم نے لے لی ہے۔ اُس دورمیں ایسے اتالیقوں کو تعلیم کے لئے دی جانے والی رہنما ہدایات ملاحظہ ہوں : ٭ علامہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں ذکر کیا ہے کہ خلیفہ ہارون الرشیدنے اپنے بیٹے امین کے اتالیق کو یہ ہدایت کی: ’’امیرالمومنین نے اپنا جگر گوشہ اوردل کا قرار آپ کے سپرد کیا ہے۔ فَصیِّر یدَک علیہ مبسوطۃ اپنے ہاتھ کو اس پر کھلا رکھیں (مارنے سے بھی گریز نہ کریں)، آپ کی اطاعت اس پر ازبس لازم ہے۔ جومقامِ (معلم) امیر المومنین نے آپ کے سپرد کیا ہے، اس کے ساتھ ویسے ہی پیش آئیے: اقرئہ القرآن وعرفہ الأخبار ورَوِّہ الأشعار وعلمہ السنن ’’اسے قرآن سکھلائیے، احادیث ِمطہرہ کی معرفت دیجئے، اشعار سے سیراب کریں اور اچھی عادات سکھلائیں ۔‘‘ الخ (تربیۃ الأولاد عربی، ۱/۱۴۴،بیروت۱۹۸۱ء) ٭ خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اپنے بیٹے کے اتالیق کو ہدایت کی: