کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 67
تعلیم کیوں دی جاتی ہے تو اُنہیں علم ہونا چاہئے کہ ان عقائد کی تعلیم تو ولادت سے بھی پہلے ہر انسان کی سرشت میں داخل کی گئی ہے اور اس سے اسکا اقرار بھی لیا جا چکاہے، قرآن میں ہے:
﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِيٓ آدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہِمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلیٰ أَنْفُسِہِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلیٰ شَہِدْنَا أَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ إنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غَافِلِیْنَ﴾
’’جب تیرے ربّ نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولادوں کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا: کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں ؟ تو اُنہوں نے کہا: کیوں نہیں ، ہم اس کی شہادت٭ دیتے ہیں ، یہ ہم نے اس لئے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔‘‘ (الاعراف: ۱۷۲)
3. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں اپنا واقعہ ذکر کیا ہے کہ میں ایک دن سواری پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا تھا تو آپ نے فرمایا:
(( یا غلام! أعلِّمک کلمات: احفظ اللّٰه یحفظک،احفظ اللّٰه تجدہ تجاہک، وإذا سألت فاسئل اللّٰه وإذا استعنت فاستعن بااللّٰه واعلم أن الأمۃ لو اجتمعت علی أن ینفعوک بشیء لم ینفعوک إلا بشیء قد کتبہ اللّٰه لک وان اجتمعوا علی أن یضروک بشيء لم یضروک إلا بشيء قد کتبہ اللّٰه علیک رُفعت الأقلام وجُفَّت المصاحف)) (جامع ترمذی: ۲۵۱۶ صحیح)
’’اے لڑکے! میں تجھے چند کلمات سکھاتا ہوں : تو اللہ (کے اوامر ونواہی )کی حفاظت کر تو اللہ تیری حفاظت کرے گا، ان کی پابندی کر تو اللہ کی مدد ہمیشہ تیرے ساتھ ہوگی۔ جب بھی مانگنا ہو تو اللہ سے مانگ، جب بھی مدد چاہے تو اللہ سے مدد طلب کر۔ یاد رکھ کہ پوری اُمت مل کر بھی تجھے فائدہ پہنچانا چاہے تو اللہ کی تقدیر سے زیادہ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔او راگر سب مل کربھی تجھے نقصان دینا چاہیں تو اللہ کے لکھے سے بڑھ کرتیرا بال بیکانہیں کرسکتی۔قلم اُٹھا لئے گئے اور(تقدیر کی)کتابیں خشک ہوچکیں ۔‘‘
٭ سورۃ الروم کی آیت نمبر ۳۰ کی روسے’’اسلام پر عمل کو انسان کی فطرت قرار دیا گیا اور اس فطرت کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔‘‘صحیح بخاری میں بھی بتایا گیا ہے کہ ’’ہر انسان فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔‘‘(رقم: ۱۳۱۹) صحیح ابن حبان میں فطرت کی بجائے ’فطرتِ اسلام‘ کے لفظ آئے ہیں۔(رقم۱۳۲صحیح) ایسے ہی الجامع الصغیر کی روایت میں ’ملت ِاسلام‘ پر پیدا ہونے کے لفظ آئے ہیں۔(رقم۸۶۸۹ صحیح)
لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ انسان کو اسلامی احکامات کی سرے سے ضرورت ہی نہیں، بلکہ صحیح بخاری کی ہی حدیث نمبر ۱۳۱۹ کی رو سے ماں باپ انسان کو یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ اس لئے اسلامی احکام کی تعلیم کے ذریعے انسان کو اصل فطرت ’اسلام‘ کی نشاندہی ، یاددہانی اور تلقین کی جاتی ہے۔
[1] مقدمۃ تحفۃ الأحوذي،ص ۲۹۲۔۳۰۴