کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 66
’بچپن میں مذہبی تعلیم ‘ شریعت ِاسلامیہ کی نظر میں
اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان پر اس قدر دینی علم سیکھنا ضروری قرار دیا ہے جس حد تک اسے اپنی زندگی میں واسطہ پیش آئے تاکہ ان مسائل میں وہ شرع کی رعایت رکھ سکے اور اس کے لئے دینی احکام بجا لانا ممکن ہوسکے۔ (اس کی تفصیل پرمستقل مضمون ’محدث‘ میں ملاحظہ فرمائیں )
ہمارے پیش نظر مسئلہ یہ ہے کہ یہ تعلیم کس مرحلہ پر دی جائے؟ اس سلسلہ میں بطورِ خاص نماز اور دینی عقائد کی تعلیم کا بھی انکار کیا جاتا ہے، کیونکہ ہماری حکومت نے بچپن میں نماز کی تعلیم کا خاتمہ کرنے کی بات کی ہے اور بعض نام نہاد دانشورں اور سرکاری ملاؤں نے مذہبی تعلیم کو محض اخلاقیات تک محدود کرکے عقائد کی تعلیم کو بھی خارج قراردینے کا موقف پیش کیا ہے ، ذیل میں ہم ان آیات اور احادیث کو پیش کرتے ہیں جن سے ان تینوں مسائل پر اسلامی نقطہ نظر کا تعین ممکن ہوسکے گا :
1. اس دینی تربیت کا آغاز بچے کی ولادت سے ہی ہوجاتا ہے، جب پیدائش کے بعد اس کے کان میں اذان٭ دی جاتی ہے، حدیث ِنبوی ہے کہ
رأیت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم أذَّن في اُذن الحسن بن علي حین ولدتہ فاطمۃ
’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاکہ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ کے کان میں اذان٭ دی، جب اُنہیں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جنم دیا۔‘‘ (سنن ابو داود: ۵۱۰۵ ’حسن‘)
٭ بچے کے کان میں اذان کہنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’بچے کے کان میں سب سے پہلے اذان، جس میں ربّ کریم کی کبریائی،عظمت وجلال اور کلمہ شہادت کا تذکرہ ہے، کی آواز پہنچانے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح دنیا سے جاتے ہوئے انسان کو کلمہ توحید کی تلقین کی جاتی ہے، اس طرح دنیا میں آتے ہوئے بھی اسلام کی پاسداری کی یاددہانی کرائی جاتی ہے۔ اور اس یاددہانی کا بچے کے دل پر اثر ہوتا ہے، چاہے اس وقت وہ شعور نہ رکھتا ہو۔‘‘ پھر اُنہوں نے دیگر فوائد کا بھی تذکرہ کیاہے ۔ (تحفۃ المودود:ص ۳۱)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ بچے کو سب سے پہلے اسلام کے بنیادی عقائد مثلاً اللہ کی کبریائی اور وحدانیت، نبی کی رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور نماز کی دعوت دی جاتی ہے۔
2. بعض دانشوروں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ بچے کو سب سے پہلے اسلامی عقائد کی
٭ البتہ بچے کے دائیں کان اذان اور بائیں میں اقامت کہنے کی جو حدیث بیہقی ہے ، وہ صحیح نہیں ہے بلکہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے موضوع قرار دیا ہے ۔ ( إرواء الغلیل : 4/401)
[1] شروط الأئمۃ الخمسۃ،ص ۴۹
٭ مقدمہ تحفۃ الاحوذی: ص۲۹۳