کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 65
اس مرحلہ پر ان کو دین کے قریب لانا ہمارے لئے ممکن نہیں رہتا۔ یہ بات تو اس دورکے ایک ماہر تعلیم کی ہے، مسلم تاریخ کے نامور ماہرین تعلیم و سماجیات کی آرا بھی ملاحظہ فرمالیجئے:
٭ علامہ ابن خلدون نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف مقدمۃ میں بچوں کے لئے تعلیم قرآن کی ضرورت او رحفظ ِقرآن کی اہمیت پر خوب تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ ’’بلادِ اسلامیہ میں قرآنِ کریم کی تعلیم کو تمام مراحل تعلیم کی اساس ہونا چاہئے کیونکہ یہ دین اسلام کا وہ بنیادی نامہ ٔہدایت ہے جو عقیدہ میں پختگی اور ایمان میں رُسوخ پیدا کرتا ہے۔‘‘
٭ مشہور اسلامی ماہر اجتماعیات ابن سینا نے بھی اپنی کتاب السیاسۃ میں ’’بچے کی تعلیم کا قرآن کریم سے آغاز کرنے کی نصیحت کی ہے جیسے ہی جسمانی اور عقلی طورپر بچہ اس کے اہل ہوجائے تاکہ وہ دنیا کی بہترین زبان (عربی) سے مانوس ہوجائے اور ا س کے دل میں ایمان کے بنیادی تصورات جڑ پکڑ جائیں۔‘‘
٭ امام غزالی نے إحیاء علوم الدین میں سکول میں بچے کی تعلیم کی ترتیب بیان کرتے ہوئے سب سے پہلے قرآنِ کریم، فرامین نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ، نیک لوگوں کی حکایتیں اور فقہی احکام کی تعلیم کو پیش کیا ہے۔ (جلد۳/صفحہ۷۳، طبع دار المعرفہ ،بیروت)
٭ موقر جریدہ روزنامہ ’نوائے وقت‘ کے ایک مراسلہ میں بھی یہی بات کہی گئی ہے :
’’اسلامیات کو غیرضروری سمجھ کر تیسری کے بعد کیوں پڑھایا جائے، حساب خاصا مشکل مضمون ہے، دو اور دو چارکرنے کا علم بھی تیسری کے بعد دیا جاسکتا ہے۔ سائنس میں آئے دن نظریات بدلتے رہتے ہیں ، سائنس بھی تیسری کے بعد پڑھائی جاسکتی ہے۔ کلمہ پڑھانے، اللہ کی پہچان اور رسول کی محبت ہی تیسری کے بعد کیوں ؟ سیکھنے کے لئے ابتدائی عمر ہی بہترین ہے، بعد میں بچے کا ذہن کھیل کوداور دیگر مشاغل میں لگ جاتاہے۔ پانچ سال کے بچے کو جو سکھایاجائے، اس کا ذہن کمپیوٹر کی طرح اسے تادمِ آخرمحفوظ رکھتا ہے۔ ‘‘ (۱۱/جون ۲۰۰۶ء)
ذیل میں ہم اسلامی شریعت کی بعض نصوص کا تذکرہ کرتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کی رہنمائی کے لئے نازل فرمایا ہے۔ وہ راسخ العقیدہ مسلمان جنہیں ایمان کی دولت نصیب ہے، اُن کے لئے فرامین نبوی اور اُسوۂ حسنہ آنکھوں کاسرمہ ہے اور اُنہیں اللہ کی آیات سے ہی دلی سکون واطمینان نصیب ہوتا ہے، رہے دانشور تو ان کے پاس تاویلاتِ فاسدہ اور توجیہاتِ نادرہ کا ایک انبار ہے، جس میں وہ حیران پھرتے ہیں ۔
[1] کشف الظنون: ۱/۵۵۹
[2] تدریب الراوی: ۱/۱۷۱
[3] مقدمہ تحفۃ،ص ۲۸۸