کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 64
منظرنامہ بخوبی نظر آرہا ہے۔حکومت ِوقت نے اِس تعلیم کے خاتمے کی وجہ بیان کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اس تعلیم سے فرقہ واریت پیدا ہوتی ہے۔ ہماری نظرمیں فرقہ واریت کی بجائے اُنہیں اس کے لئے زیادہ موزوں لفظ ’مذہبی منافرت‘ استعمال کرنا چاہئے تھا۔ کیونکہ فرقہ واریت کا اطلاق تو مسلمانوں کے مابین ہوتا ہے جبکہ عقائد کے خاتمہ اور اخلاقیات کو اسلام سے کاٹ کر پڑھا دینے سے مسلم اور غیر مسلم کا تشخص ہی مٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ مذہبی بنیادوں پر قوم کی یہ تقسیم جدیدتصورِ ریاست کے لئے جو وطن کی بنیاد پر قائم ہے، ناقابل قبول ہے اور اسی کے خاتمے کی راہ ہموار کی جارہی ہے، لیکن یاد رہے کہ ایسا کرنا پاکستان کے مقصد وجود اور نظریہ پاکستان سے کھلا انحراف ہوگا کہ اس خطہ کا اسلامی تشخص ہی ختم کردیا جائے۔ بچپن کی تعلیم کی اہمیت مسلمہ ہے۔انسان اپنے ماضی کا اسیر ہے، بالخصوص اس کے بچپن کے چند سال جس ماحول میں بسر ہوئے ہیں ،اس سے وہ ساری زندگی باہر نکل نہیں پاتا۔ مثال کے طورپر ان سالوں میں اگر اسے نظراندازی کی اذیت یا غربت کی تکلیف سے دوچار ہونا پڑا ہو تو زندگی بھر وہ لاشعوری طورپر ان کے تدارک میں لگا رہتا ہے۔ ایسے ہی بچپن میں انسان کی سیکھنے کی صلاحیت انتہائی تیز ہوتی ہے اور علم کے کسی شعبہ میں سب سے پہلا جو تعارف اسے حاصل ہوتا ہے، وہ اس کے دل ودماغ میں جڑ پکڑ جاتا ہے۔ عمر کے اس دو رمیں جب انسان کسی نظریے کے تجزیے کے قابل نہیں ہوتا، کچے ذہن کو ملنے والی تمام معلومات اس کے ذہن کی بنیادی ساخت کو تشکیل دیتی ہیں ۔ عربی زبان کا ایک مقولہ ہے : العلم في الصغر کالنقش علی الحجر ’’بچپن کا علم پتھر پر لکیر کی مانند ہے۔‘‘ انسان کی فکر ونظرکے زاویے اوائل عمری میں ایک رخ اختیار کرلیتے ہیں ، نفسیات کے ماہرین کے نزدیک انسان اپنی فکری شخصیت کا بیشترحصہ اپنی زندگی کے پہلے عشرے میں پورا کرلیتا ہے، اس کے بعد مزید علمی تفصیلات کو اسی کی روشنی میں پرکھتا اور اختیار کرتا ہے۔ ٭ چند برس قبل راقم کو اسلام آباد میں ہائر ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین سے ایک مسجد میں ملاقات کا موقع ملا۔ موصوف نیک خیالات کے حامل تھے اور طلبہ میں دین سے دوری کا شکوہ کررہے تھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ ایک ذمہ دار عہدے پرموجود ہیں ، آپ خود اس سلسلے میں کیوں اقدام نہیں کرتے؟ تو چیئرمین صاحب کا جواب یہ تھا کہ بچے جب ہمارے زیر نگرانی تعلیمی مرحلے میں داخل ہوتے ہیں ، اس وقت تک وہ ایک ذہن بنا چکے ہوتے ہیں ،
[1] صفحہ ۱۶