کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 63
روایات پختہ کررکھی تھیں ۔ حال ہی میں امریکہ میں جب دینی تعلیم کو سرکاری سکولوں میں دینے کی بات ہوئی تو اس وقت بھی امریکہ میں یہودی لابی نے پوری قوت سے اس نظریہ کی تردید کی اور یہ موقف اختیار کیا کہ امریکی ریاست کے شہری کسی مذہب کے فروغ کے لئے ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں مذہبی تعلیم سرکاری نظام تعلیم کی بجائے ہزاروں پرائیویٹ مذہبی سکول (دینی مدارس)میں دی جاتی ہے۔ ہر مالی استطاعت رکھنے والا سرکاری نظامِ تعلیم کو چھوڑ کر مذہبی سکولوں میں اپنے بچے داخل کرانے کو ترجیح دیتا ہے اور مستقبل کی امریکی قیادت انہی سکولوں سے نکل رہی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ سکول ابتدائی کلاسوں کے ہی ہیں ، ثانوی مراحل کے نہیں جس سے مذہبی تعلیم کے مرحلہ کا بھی علم ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی خصوصی توجہ کا مستحق ہے کہ کیا ضرورت ہے کہ اخلاقیات کو اس ذاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کاٹ کر سکھایا جائے جن کا مقصد ِبعثت ہی مکارمِ اخلاق کی تکمیل تھا؟ اس سے کونسے مذموم مقاصد پورے ہوتے ہیں ؟ مسلمانوں کی نظر میں اخلاقیات کی میزان خود دین اسلام کے ذریعے ہی قائم ہوتی ہے۔ اگر اخلاقیات کی اس مسلمہ بنیاد کو چھوڑ کر خود ساختہ تصورِ اخلاق وضع کرلیا جائے تو بے حیائی، فحاشی، آزادانہ اختلاط اور بدکاری وغیرہ کو بھی اخلاقیات کے زمرے سے باہرنکالنا ممکن نہیں رہتا۔ طریقہ نماز کا خاتمہ بھی ایک ذومعنی اقدام ہے۔پاکستان کی تعلیمی پالیسیاں آغاز سے ہی محض اسلام سے ذہنی محبت اور دلی وابستگی تک محدود رہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کے مسلمان آج بھی ذہنی اور جذباتی حد تک تو اسلام سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں لیکن چونکہ ان پالیسیوں میں اسلامی احکامات کو عملاً اختیار کرنے کا ہدف کبھی پیش نظر نہیں رکھا گیا، یہی وجہ ہے کہ اس گہری جذباتی وابستگی کے ساتھ عملاً پاکستانیوں کی اکثریت نہ صرف اسلامی احکام ومسائل سے لاعلم ہے بلکہ اس وجہ سے ان پر عمل بھی نہیں کر پاتی۔چنانچہ اسی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے بچے کچھے اسلامی احکامات کو بھی اسلامیات کے نصاب سے خارج کیا جارہاہے۔ اسلامیات کے نصاب کو مستقل طورپر نہ پڑھانے کی بجائے اسے دیگر مضامین میں جذب کردینے سے بھی پالیسی سازوں کے اس تحفظ کا اظہار ہوناہے کہ وہ اسلامیات کو نظراندازکرنا اور طلبہ کے ذہن سے اس کی اہمیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ در اصل آغاز سے مذہبی تعلیم کا خاتمہ ایک تدریجی عمل کا آغاز ہے جس میں مستقبل کا
[1] مقدمۃ تحفۃ،ص ۲۸۱،۲۸۲ [2] مقدمۃ عارضۃ الأحوذي،ص ۵،۶