کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 62
جبکہ ہم ’انفرادیت پسندی‘ پر یقین رکھتے ہیں ۔ آپ بچی کو لے جاسکتے ہیں ، اس طرح کی پابندی کوئی امریکی سکول قبول نہیں کرسکتا۔ اس واقعہ سے بخوبی پتہ چل جاتا ہے کہ جدید دنیا میں بچے کی تربیت کا حق ریاست کے سپرد کردیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے زیر نگرانی سکولوں اور نظامِ تعلیم کے ذریعے اپنی صوابدید کے مطابق بچوں کو مستقبل میں ریاست کامفید شہری بناسکے۔ دوسری طرف اسلام بچے پر سب سے پہلا حق اللہ تعالیٰ کا قرار دیتا ہے، کیونکہ وہ اللہ ہی انسان کاخالق ومالک ہے، انسان کی تمام صلاحیتیں اسی کی عطا کردہ ہیں ، اس نے دنیا میں انسان کو اپنی عبادت اور خیر وشر کے ایک امتحان سے گزرنے کے لئے پیدا کیا جس پر قرآنِ کریم کی بیسیوں آیات شاہد ہیں۔ اسلام کی نظر میں انسان کی تعلیم ایسی ہونی چاہئے جو اسے اللہ کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارنا سکھائے۔ مغرب اسی دنیا کے مفاد (عاجل)کو پیش نظر رکھتا ہے لیکن اسلام اس دنیا کے نتائج کو آخرت سے مربوط کرتا اور آخرت میں بہتر انعامات کا وعدہ(آجل) دیتا ہے۔ گویا دونوں کے ہاں زندگی کے بنیادی نظریات میں ہی فرق ہے۔ تعلیمی نظریات ایک لمبا موضوع ہے۔جس پر بہت سی تفصیلات اور متعدد نکتہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں ،ہرایک کے اپنے دلائل ہیں لیکن افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ جب اسلام کا نام لینے والے بعض دانشور بھی تعلیم کے نام پر مغربی افکار کی ’جگالی‘ کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ لوگ انسان کو مذہب کی رہنمائی سے نکال کر ریاست کے قبضے میں دینا چاہتے ہیں جس پر خود چند انسانوں کا قبضہ وتسلط ہے۔ آسان الفاظ میں اسلام اگر ہمیں صر ف اللہ کی اطاعت کا پابند کرتا ہے تو یہ نام نہاد ’دانش باز‘ ریاست کے نام پر ہمیں اپنے جیسے کئی انسانوں کا غلام بننے اور دنیاوی مفادات کے تابع زندگی گزارنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ حکومت کی حالیہ پالیسی میں اسلامیات کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات بالکل ناروا ہیں ۔ سب سے پہلے تو یہ بات غور طلب ہے کہ اسلامیات کو ابتدائی کلاسوں سے نکالنے سے کیامقصد پورا ہوتا ہے ؟ اس کی ضرورت یا فائدہ کیا ہے کہ بچے کو بنیادی عقائد، اللہ تعالیٰ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس ناموں سے محروم کردیا جائے؟ کیا یہ اسی سیکولر ازم کا کرشمہ ہے جس کی رو سے اجتماعی میدانوں مثلاًسرکاری تعلیم وغیرہ میں مذہبی تفصیلات کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اسے ہرشخص کی ذاتی صوابدید پرچھوڑ دیا جاتا ہے۔ مغرب میں یہ نظریہ ماضی میں یہودیوں نے بڑے شد ومد سے پیش کیا کیونکہ خود اُنہوں نے اپنے بچوں کی گھروں میں دینی تعلیم کی
[1] مقدمۃ تحفۃ،ص ۲۸۱،۲۸۲ [2] حجۃ اللّٰه البالغۃ،۱۵۱ [3] بستان المحدثین،ص ۱۸۵