کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 61
مستعار لئے ہوئے ہوں ، مرعوبیت اور محکومیت کو ان کی جڑوں میں پیوست کردیا گیا ہو تواس قوم کے احیا کے امکانات معدوم تر ہوجاتے ہیں ۔
پاکستان میں اسلامیات کی تعلیم کا موضوع کچھ عرصہ سے کافی حساسیت اختیار کرگیاہے۔ حکومت ِوقت امریکی اشاروں پر نونہالانِ قوم کو غیروں کے سپرد کرنے میں والہانہ پن کا مظاہرہ کررہی ہے۔ بالخصوص گذشتہ ماہ ۱۰ جون کو وفاقی وزیر تعلیم کے صوبائی وزراء تعلیم کی ۱۰ویں کانفرنس میں نئی قومی تعلیمی پالیسی پیش کرنے کے بعد یہ موضوع دوبارہ بحث ومباحثہ کا مرکز بن گیا ہے۔ اس موقعہ پر ۱۱ جون کے اخبارات میں جلی سرخیوں سے شائع ہونے والا وفاقی وزیر تعلیم کا یہ بیان مغالطہ آمیز ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’اسلامیات پہلی سے بارہویں جماعت تک پڑھائی جائے گی۔‘‘ جبکہ بعض اخبارات میں اشاروں کنایوں سے یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ اسلامیات کا مضمون پہلی اور دوسری کلاس سے ختم کردیا گیا ہے۔ روزنامہ ’خبریں ‘ نے تو دورانِ اجلاس اسی بنا پر صوبہ سرحد اور بلوچستان کے وزراے تعلیم کے واک آوٹ کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں اسلامیات کے نصاب سے طریقۂ نماز کو بھی ختم کیا جا چکا ہے، یہ خبر روزنامہ ’اوصاف‘ نے ۱۱/ جون کو شائع کی۔ بعد میں دیگر اخباری ذرائع سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ عربی کو بھی لازمی کی بجائے اختیاری مضمون کی حیثیت دے دی گئی ہے۔
اسلامیات کو پہلی کلاسوں سے نکالنے کی ضرورت کیا ہے؟ ا س کے لئے ہمیں تعلیم کے بعض عصری تصورات پرنظر ڈالنا ہوگی۔ سیکولر دانشوروں کے نزدیک انسان پر پہلا حق اس ریاست کاہے، جہاں وہ پیدا ہوا اور جس سے اس کے والدین فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔ انسان کو اپنے وطن کی خدمت کو اپنا پہلا مقصد بنانا چاہئے اور اس کی تعلیم کو ریاستی مفادات کے تابع ہونا چاہئے۔ ان کے خیال میں ریاست کو آگے بڑھنے کے لئے جس طرح کے انسان درکار ہیں ، ان کی تیاری میں خاندان یا مذہب کو کوئی دخل نہیں دینا چاہئے۔
راقم کے دورۂ امریکہ میں واشنگٹن میں ایک مسلمان باپ اظہر حسین سے میرا مکالمہ ہوا۔ وہ دین دار آدمی امریکی سکول کی انتظامیہ سے یہ بات کرنے آیا تھا کہ اس کی چھوٹی بچی کو دوسرے لڑکوں کے ساتھ دوستی کا ماحول اور ترغیب نہ دی جائے کیونکہ یہ امر اس کے دینی نظریات کے خلاف ہے اور مسلم تہذیب میں لڑکیوں کی دوستی لڑکیوں سے ہی ہوتی ہے۔سکول انتظامیہ نے جواباً اسے کہا کہ آپ اپنی بچی کو اپنے ذاتی رجحانات کے تابع رکھنا چاہتے ہیں
[1] تذکرۃ الحفاظ ۲/۶۳۴،کشف الظنون ۱/۵۵۹
[2] جامع الأصول۱/۱۲۹