کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 60
کتاب: محدث شمارہ 301
مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی
پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور
ترجمہ:
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
فکر و نظر
بچپن میں ’اسلامیات‘ کی تعلیم ؟
مسلم دنیا کو بالعموم اور اہم اسلامی ممالک کو بالخصوص ان دنوں مغرب کی طرف سے شدید تعلیمی یلغار کا سامنا ہے۔ نیو یارک کے بم دھماکوں کے بعدسے مسلم دنیا میں امریکہ مخالف جذبات کے خاتمے کے لئے گلوبلائزیشن کے نام پر نیوورلڈآرڈر کو عملاً نافذ کیا جارہا ہے۔ تعلیم کے میدان میں جاری اس معرکے کو جہاں عالمی سیاست کے ذریعے تقویت دی جارہی ہے وہاں مسلم قوموں کی ذہنیت میں تبدیلی کا یہ عمل ذرائع ابلاغ کے ذریعے بھی پورا کیا جارہا ہے۔ ایسا صرف پاکستان میں ہی نہیں کہ یہاں نظامِ تعلیم کو ملک وملت دشمن گروہ آغاخانیوں کے سپرد کیا گیا ہو، تعلیمی نصاب سے اسلامیات کے خاتمے کی باتیں ہو رہی ہوں ، انگریزی کا فروغ اور اسے پہلی کلاس سے لازمی قرار دیا جارہا ہو اور عربی کو دیس نکالا دینے کے لئے عربی کو اختیاری مضمون بنایا اور عربی اساتذہ کی آسامیوں کا اعلان ہی بند کردیا گیا ہو بلکہ تعلیمی رجحانات میں یہ تبدیلی خصوصاً سعودی عرب، کویت، مصر اور یمن میں بھی امریکی دباؤ پر عمل میں لائی جارہی ہے۔ حج کے موقع پر سعودی عرب کے دورے میں راقم نے ریاض میں بہت سے نئے خواتین کالج اور یونیورسٹیاں کھلتی دیکھیں ۔ کویت کے ۳۵ سالہ قدیم نصاب میں دو برس قبل بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کی جا چکی ہیں ، یہی صورتحال دیگر مسلم ممالک میں بھی ہے۔
کسی قوم کی تبدیلی میں دو عناصر بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اور یہ دونوں عناصر’ تعلیم‘ کے ہی دو مراحل ہیں ۔ ایک وہ تعلیم ہے جوانسان درسگاہوں میں حاصل کرتا ہے اور دوسری وہ تعلیم جس سے ابلاغ اور میڈیا کے نام پر قبر تک انسان کا ساتھ برقراررہتا ہے۔امریکہ اور یورپ یہ جان چکے ہیں کہ وہ قوت کے ذریعے اگر اپنے استعماری مقاصد پورے کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں شدید ردّ ِعمل پیدا ہوتا ہے، اس لئے ان کی نظر میں تبدیلی قوت کی بجائے اس ڈھنگ پر کی جائے کہ سوچنے سمجھنے کے پیمانے ہی بدل جائیں اور اسی مقصد کے لئے عالم اسلام میں یہ نیا سٹیج سجایا گیا ہے۔ اگر کسی قوم کے ذہن اور خیالات غیروں سے
[1] مقدمۃ تحفۃ الأحوذي:ص۲۷۱