کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 135
’’ہجرت اور فتح و نصرت کے درمیان یہی وہ رشتہ ہے جس کے سبب سے یہ سورہ جو بالاتفاق مدنی ہے، ایک مکی سورہ کی مثنیٰ قرار پائی۔ اس سورہ کے زمانۂ نزول سے متعلق دو قول ہیں : ایک یہ کہ فتح مکہ کے بعد نازل ہونے والی سورتوں میں یہ سب سے آخری سورہ ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ فتح مکہ سے پہلے اس کی بشارت کے طور پر نازل ہوئی ہے۔ میرے نزدیک اسی دوسرے قول کو ترجیح حاصل ہے۔ ‘‘ (تدبر قرآن: جلد۹/ صفحہ ۶۱۵،۶۱۶) خلاصۂ کلام یہ ہے کہ تمام مفسرین اور علماے امت کے نزدیک سورۂ النصر مدنی سورت ہے۔ اس کے مدنی ہونے پر اجماعِ امت ہے اور امام قرطبی نے، جیسا کہ اُوپر مذکور ہوا، اس پر اجماع نقل کیا ہے اور امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس بارے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ۔ ٭ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایک اجماعی اور متفق علیہ امر میں اختلاف پیدا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ میرے نزدیک اس کا واحد سبب جناب غامدی صاحب کے وہ من گھڑت، خود ساختہ اور موضوعہ اُصولِ تفسیر و اُصولِ دین ہیں جن کا لازمی نتیجہ اُمت کے متفقہ اور مجمع علیہ مسائل میں بھی اختلاف کی صورت میں نکلتا ہے اور جس سے اُمت میں افتراق و انتشار پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ حد ِ رجم کا مسئلہ ہو یا مرتد کی سزا کا، جہاد و قتال کا حکم ہو یا قراء اتِ سبعہ کا، حدود میں عورت کی گواہی کا مسئلہ ہو یا دیت کا، وحی ِخفی کی بات ہو ، یا عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ آسمان پر اُٹھا لینے کی یا پھر رسولوں کا قتل ممکن ہونے کی؛ وہ ہر معاملے میں اُمت سے الگ کھڑے نظر آتے ہیں اور غیر سبیل المؤمنین پر چلتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ع بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا اس کے باوجود ان کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ تعامل اُمت (جسے وہ ’سنت‘ کی اصطلاح بتاتے ہیں ) کو مستند، معتبر اور حجت مانتے ہیں ۔ ع جنا ب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی!