کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 130
بسلسلہ غامدیت محمد رفیق چودھری جاوید احمد غامدی کے من پسند اُصولِ تفسیر کیا سورۃ النصرمکی ہے؟ …ایک جائزہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کے شاہد اور امین۔بلا شبہ قرآنِ کریم کے جواہرات جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معصوم زندگی کی لڑی میں پروئے جاتے تو یہ ہار صحابہ کی نظروں کو خیرہ کرتا۔چنانچہ بعد کے مفسرین قرآن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کو یہی امتیاز حاصل ہے کہ قرآنِ مبین اُن کی زبان میں اُترتا تھا اور وہ اپنے سامنے وحی ٔ نبوت کا مشاہدہ بھی کرتے تھے۔ارشادِ گرامی: (( ما أنا علیہ وأصحابي))کی تعمیل کا ایک تقاضا یہ بھی ہے۔اسی بنا پر قدیم مفسرین خواہ وہ فلسفی ہوں یامعتزلی (عقل پرست)، سب اس پر متفق نظر آتے ہیں کہ اگر قرآن کی کسی آیت یا سورت کا موقع محل صحابہ کرام متعین کر دیں تو اسے تسلیم کر لیاجائے۔سورۃ النصرکے موقع محل کے حوالے سے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے علما کے ایک مجمع میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قربت ِوصال کا اشارہ بتایا تو سب نے اس پر صاد کیا،لیکن دورِ حاضر کے ندرت پسند فلسفۂ فطرت (اعتزالی نیچریت) کے اُصولوں سے اس امر کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ قرآنی سُوَریا آیات کو قرآنِ کریم کے اوّلین مخاطبین کو نظر انداز کر کے اپنے من پسند سانچوں میں جہاں چاہیں ، فٹ کریں ۔درج ذیل مضمون اسی غلط’ اُصولِ تفسیر‘ کی نشاندہی کے لیے لکھا گیا ہے جو ہدیۂ قارئین ہے۔ (محدث) اہل علم جانتے ہیں کہ سلف و خلف کے تمام مفسرین کے نزدیک سورۂ نصر مدنی ہے اور اس کے مدنی سورہ ہونے پر سب کا اتفاق اور اجماع ہے۔ مگر جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے اس متفقہ اور مجمع علیہ امر میں بھی اختلاف پیدا کیا ہے اور ان کو سورۂ نصر کے مکی سورہ ہونے پر اصرار ہے۔چنانچہ وہ اپنی اُلٹی تفسیر البیان (میں اس تفسیر کو اُلٹی اس لئے کہتا ہوں کہ یہ آخری سورتوں سے شروع ہوکر ابتدائی سورتوں کی طرف چلی آرہی ہے اور ابھی تک نامکمل ہے) میں لکھتے ہیں : 1. ’’سورۃ النصر کامرکزی مضمون آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سرزمین عرب میں غلبہ حق کی بشارت اور