کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 127
1. آپ اس باب کا عنوان قائم کرتے ہیں جس میں کسی صحابی سے ایسی مشہور حدیث وارد ہوئی ہو جس کی سند اس صحابی تک صحیح ہو اور وہ کتب ِصحاح میں بھی بیان کی گئی ہوپھر اس باب میں وہی حکم کسی دوسرے صحابی کی حدیث سے بیان کرتے ہیں اور وہ حدیث اس صحابی سے کتب ِصحاح میں موجود نہیں ہوتی اور اس حدیث کی سند بھی ما قبل حدیث کی سند سے مختلف ہوتی ہے مگر اس کا حکم صحیح ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ وفي الباب عن فلان وفلان کہہ کر صحابہ کی ایک جماعت کے نام ذکر کرتے ہیں جن سے اس معنی کی روایات وارد ہوتی ہیں اور ان میں اس صحابی کا نام بھی بیان کردیتے ہیں جس کی حدیث سے باب کا حکم اخذ کیا گیا ہوتا ہے اور وہ باب کی اصل حدیث کے بعد بیان کی گئی ہوتی ہے۔اس طریق کار سے امام ترمذی کے پیش نظر مندرجہ ذیل مقاصد ہوتے ہیں :
۱۔ علما اس غیرمشہور حدیث پر مطلع ہوجائیں ۔
۲۔ حدیث کی سند میں موجود علت کا اظہار کرنا مقصود ہوتا ہے۔
۳۔ اس حدیث میں الفاظ کی کمی وبیشی کا بیان مقصود ہوتا ہے۔
2. امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ پہلے باب کا عنوان قائم کرتے ہیں پھر اسکے تحت ایک یا ایک سے زائد احادیث بیان کرتے ہیں ۔اگر کسی میں کوئی کلام ہو تواس کی وضاحت کر دیتے ہیں ۔اس کے بعد وفي الباب عن فلان وفلان سے اس کے متعدد طرق کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ تدریب الراوی میں فرماتے ہیں :
’’ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی اس سے مراد باب میں مذکورہ متعین حدیث نہیں ہوتی بلکہ دیگر وہ احادیث مراد ہوتی ہیں جن کا اس باب میں ذکرکرنا مناسب ہوتا ہے۔‘‘
امام عراقی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہی بات صحیح ہے، اگرچہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ جن صحابہ کے نام بیان کرتے ہیں وہ بعینہٖ اس حدیث کوبیان کرنے والے ہوتے ہیں جسے امام صاحب نے بابکے تحت بیان کیا ہوتا ہے حالانکہ بات ایسے نہیں ہے بلکہ کبھی ایسے ہوتا ہے اور کبھی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی مراد کوئی اور حدیث ہوتی ہے جسے اس باب میں بیان کرنا مناسب ہوتا ہے۔
3. عموماً امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ وفي الباب عن فلان وفلان کہتے ہیں یعنی صحابہ کے نام ذکر کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی عن فلان عن أبیہ کہہ دیتے ہیں یعنی صحابی کے بیٹے کا نام ذکر کرتے ہیں جو اپنے باپ سے راویت کر رہا ہوتا ہے، مثال کے طور پر امام ترمذی باب لاتقبل