کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 124
حدیث ضعیف ہوتی ہے یا وہ چوتھے طبقے کے راویوں سے منقول ہوتی ہے تو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اس کے ضعف کو بیان کرکے اس پر تنبیہ کردیتے ہیں ۔ایسی حدیث ان کے نزدیک شواہد کے باب سے ہوتی ہے جب کہ ان کا اصل اعتماد اسی حدیث پرہوتا ہے جو راویوں کی ایک جماعت سے صحیح منقول ہوتی ہے۔علاوہ ازیں جامع ترمذی، سنن ابو داود اور نسائی سے زیادہ نافع اور فوائد میں زیادہ جامع ہے[1]اسلئے راجح بات و ہی ہے جو صاحب کشف الظنون نے کہی ہے۔
جامع ترمذی کی شروحات
شروحات کے اعتبار سے صحیح بخاری کے بعد جامع ترمذی کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر علما اور محدثین نے اس کو اپنی توجہ کا مرکز ٹھہرایا اور اس کی متعدد شروحات اور حواشی لکھے۔ چند مشہور و متداول شروحات و حواشی مندرجہ ذیل ہیں :
1. المنقح الشذي في شرح الترمذي از حافظ ابوالفتح محمد بن محمدبن سید الناس الشافعی (م۵۳۴ھ)۔ موصوف اپنے وقت کے ائمہ حدیث میں شمار ہوتے ہیں ۔
کشف الظنون میں ہے کہ آپ جامع کی شرح مکمل نہیں کر سکے۔ ابھی کتاب کے دو ثلث تک بھی نہیں پہنچے تھے کہ شرح دس جلدوں تک پہنچ گئی آپ اگر صرف فن حدیث پر اکتفا کرتے تو شرح مکمل ہو جاتی۔ پھر بعد میں حافظ زین الدین عبد الرحیم عراقی نے اس شرح کی تکمیل کی لیکن حافظ سیوطی لکھتے ہیں کہ حافظ عراقی بھی اس کی تکمیل نہیں کر سکے۔ ٭
2. عارضۃ الأحوذي،از حافظ ابوبکر ابن العربی مالکی (م۵۴۶ھ)موصوف نے حدیث، فقہ،اُصول،علوم قرآن،ادب،نحواور تاریخ میں کتب تصنیف کیں اور اپنے دور کے مجتہد تھے۔
3. مختصر الجامع ازنجم الدین سلیمان بن عبدالقوی طوفی حنبلی (م۷۱۰ھ)
4. مختصر الجامع،ازنجم الدین محمد بن عقیل بالسی شافعی (م۷۲۹ھ)
5. شرح الترمذي،از شیخ زین الدین عبدالرحمن بن شہاب الدین احمد بن حسن بن رجب بغدادی حنبلی (م ۷۹۵ھ)آپ اُصولی ،محدث،فقیہ،مشہور واعظ اور علوم کے امام تھے اور بہت سی کتب بھی تصنیف کیں ۔