کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 123
روایات سے اجتناب کرتے ہیں ، کیونکہ ائمہ کرام ان سے استدلال نہیں کرتے ۔
جامع ترمذی کا صحاحِ ستہ میں مقام
کشف الظنون میں ہے کہ’’ امام ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’جامع صحیح‘ صحاح ستہ میں تیسرے نمبر پرہے یعنی اس کا رتبہ صحیحین کے بعد ہے۔‘‘[1]
البتہ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تدریب الراوي میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کایہ قول نقل کیا ہے :
’’انحطت رتبۃ جامع الترمذي عن سنن أبی داؤد والنسائي لإخراجہ حدیث المصلوب والکلبي وأمثالھا‘‘
’’جامع ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا رتبہ سنن ابی داؤد اور سنن نسائی رحمۃ اللہ علیہ سے کم ہے، کیونکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے محمد بن سعید مصلوب اور محمد بن سائب کلبی وغیرہ کی احادیث بیان کی ہیں ۔‘‘[2]
صاحب تحفہ الاحوذی ،علامہ مبارکپوری فرماتے ہیں کہ
تہذیب التہذیب،تقریب التہذیب،خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال اورتذکرۃ الحفاظ کے رموز سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ جامع ترمذی رتبہ کے لحاظ سے سنن ابو داود کے بعد اور سنن نسائی سے پہلے ہے کیونکہ ان کتابوں کے مصنّفین سنن ابی داؤد ،جامع ترمذی اور سنن نسائی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اپنے کتابوں میں (دت س) لکھتے ہیں ۔ ’د ‘ سے مراد سنن ابی داؤد، ’ ت ‘ سے مراد جامع ترمذی اور ’ س ‘ سے مراد سنن نسائی لیتے ہیں ۔ اسی طرح جامع صغیر میں امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے رموز بھی اسی پر دلالت کرتے ہیں اور مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی شرح فیض القدیر میں کہا ہے کہ مؤلف کے اس فعل سے معلوم ہوتا ہے کہ
’’ جامع ترمذی رتبہ میں ابوداود اور نسائی کے درمیان ہے ۔‘‘
لیکن میرے نزدیک ظاہر اور راجح قول صاحب کشف الظنون کاہے کہ جامع ترمذی صحاحِ ستہ میں تیسرے نمبر پر ہے کیونکہ اگرچہ امام ترمذی نے مصلوب اور کلبی وغیرہ کی حدیثیں بیان کی ہیں لیکن ان کے ضعف کو بیان کر کے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ یہ حدیثیں ان کے نزدیک شواہد اور متابعات کے باب سے ہیں ۔[3] اس بات کی تائید میں حافظ حازمی رحمۃ اللہ علیہ شروط الائمۃ میں فرماتے ہیں کہ ترمذی کی شرط ابوداؤد کی شرط سے زیادہ اَبلغ ہے کیونکہ جب کوئی