کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 121
میں کوئی دوسرا ان کا شریک نہیں ۔‘‘
جامع ترمذی رحمۃ اللہ علیہ چودہ علوم پر مشتمل ہے
امام سیوطی قوت المغتذي میں رقم طراز ہیں کہ
حافظ ابوعبداللہ محمد بن عمر بن رشید (م۷۲۲ھ)نے کہا ہے کہ میری تحقیق کے مطابق جامع ترمذی کا اجمالی طور پر درج ذیل سات علوم پر مشتمل ہونا واضح ہے :
1. تبویب یعنی احادیث کو ابواب کے تحت ترتیب دینا
2. علم فقہ کا بیان
3. علل حدیث کا تذکرہ جو صحیح،ضعیف اور ان کے درمیانی مراتب حدیث پر مشتمل ہے
4. راویوں کے نام اور کنیتوں کا بیان
5. رجال واسانید پرجرح اورتعدیل کا ذکر
6. جن رواۃ سے حدیث نقل کی ہے، ان کے متعلق یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ ان میں سے کس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوپایا ہے اور کس نے نہیں اور ان کا ذکر بھی کیا ہے جن سے مسند روایت کرتے ہیں ۔
7. ایک حدیث کے مختلف راویان کا شمار
اس بیان کے بعد حافظ موصوف لکھتے ہیں کہ یہ تو ا س کتاب کے علوم کا اجمالی خاکہ ہے باقی رہے تفصیلی علوم تووہ بہت زیادہ ہیں ۔ حافظ ابن سید الناس فرماتے ہیں کہ وہ علوم جو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب میں موجود ہیں لیکن ابن رشید نے ان کا ذکر نہیں کیا ،درج ذیل ہیں :
8. شذوذ کا بیان
9. موقوف کابیان
10. مدرج کا بیان[1]
قاضی ابوبکر ابن العربی (م۵۴۷ھ)نے عارضۃ الأحوذي میں درج ذیل چار علوم کا مزید اضافہ کیا ہے:
11. مسند،موصول اور مقطوع حدیث کا بیان
12. متروک العمل اور معمول بہ روایات کی وضاحت
13. احادیث کے ردوقبول کے بارے میں علماء کے اختلاف کا بیان
14. حدیث کی توجیہ و تاویل کے سلسلہ میں علماء کے اختلاف و آرا کا ذکر[2]