کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 120
کے علمی فوائد اور سلف و خلف کے مذاہب کا ایک ایسا جامع مرقع ہے ،جو مجتہد کی ضرورت کو پورا کر دیتا اور مقلد کوبے نیاز کردیتا ہے۔ ‘‘[1]
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ
’’میرے نزدیک وسعت ِعلم،بہت مفید تصنیفات اور زیادہ شہرت حاصل کرنے کے اعتبار سے چار محدث ہیں جو آپس میں تقریباً تقریباً ہم عصر ہیں ۔ ان کے نام نامی اسماء گرامی ابو عبد اللہ محمد بن اسمٰعیل بخاری،مسلم بن حجاج نیشا پوری،ابوداودسجستانی،اورابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی ہیں ۔‘‘[2]
علامہ شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ بستان المحدثین میں فرماتے ہیں :
’’ ترمذی کی کل تصانیف بہت زیادہ ہیں ، ان میں سے سب سے بہترین تصنیف ان کی جامع ہے بلکہ متعدد وجوہ کی بنا پر تمام کتب ِحدیث سے زیادہ مفید اور بہترہے اور وہ وجوہ درج ذیل ہیں :
1. حسن ترتیب اورعدمِ تکرار
2. فقہا کے مذاہب اور ہر ایک مذہب کے استدلال کی وجوہ کا تذکرہ
3. حدیث کی انواع یعنی صحیح، حسن، ضعیف، غریب اورمعلل کا بیان
4. رواۃ کے اسما، القاب اور ان کی کنیّتوں کا بیان اور علم أسماء الرجال کے متعلق دیگر فوائد کاتذکرہ[3]
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جامع میں امام ابوداود سجستانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ دونوں کے طریقوں کو جمع کیا ہے ۔ایک طرف آپ نے احادیث ِاحکام میں سے صر ف ان احادیث کو لیا ہے جن پر فقہا کا عمل رہا ہے تو دوسری طرف اپنی کتاب کو صرف احکام کے لئے مختص نہیں کیا ،بلکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی طرح سیر، آداب، تفسیر، عقائد ، فتن، احکام، شرائط اور مناقب سب ابواب کی احادیث کو لے کر اپنی کتاب کو جامع بنا دیا ہے اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ علومِ حدیث کی مختلف انواع کو اس میں اس طرح سمودیا ہے کہ وہ علم حدیث کا مرجع بن گئی ہے۔
اسی طرح ابوجعفر بن زبیر (م ۷۵۸ھ) برنامج میں صحاحِ ستہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کو علم حدیث کے مختلف فنون کو جمع کرنے کے لحاظ سے جو امتیاز حاصل ہے اس