کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 119
جامع ترمذی کے فضائل و محاسن حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ تذکرۃ الحفاظ میں ابو علی منصور بن عبد اللہ خالدی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابوعیسیٰ ترمذی کا کہنا ہے کہ ’’ میں نے اس کتاب کو تصنیف کرنے کے بعد علماے حجاز پر پیش کیا تو وہ اس پربہت خوش ہوئے۔ پھر میں نے اسے علماے عراق پر پیش کیا تو اُنہوں نے بھی اسے پسند فرمایا۔اس کے بعدمیں نے اس کتاب کو علماے خراسان پر پیش کیا تو انہوں نے بھی اس کوپسند کیا ۔جس شخص کے گھر میں یہ کتاب ہے گویا کہ اس گھر میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرما رہے ہیں ۔ ‘‘[1] حافظ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ جامع الأصول میں فرماتے ہیں : ’’امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب بہت سے علمی فوائد کی حامل، عمدہ ترتیب سے مزین اور بہت کم تکرار والی حدیث کی ایک بہترین کتاب ہے جس میں علما کے اقوال، طریقہ ہائے استدلال اور حدیث پر صحیح،ضعیف اور غریب ہونے کا حکم لگانے کے علاوہ جرح وتعدیل کا بیان اس قدر کثرت سے پایا جاتا ہے جو حدیث کی کسی اور کتاب میں نہیں ملتا۔‘‘[2] صاحب تحفۃ الاحوذی شیخ الاسلام ابواسماعیل الہروی کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ ’’امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ہمارے نزدیک، بخاری و مسلم کی کتاب سے زیادہ مفید ہے کیونکہ بخاری اور مسلم کی کتابوں سے تو صرف ایک ماہر عالم ہی مستفید ہو سکتا ہے جبکہ ابوعیسیٰ کی کتاب سے فقہا اور محدثین کے علاوہ عام آدمی بھی استفادہ کرسکتاہے،کیونکہ اس میں بیان کردہ احادیث کی امام صاحب نے خود ہی شرح اور وضاحت کر دی ہے۔‘‘ مزید لکھتے ہیں کہ فتح الدین ابن سید الناس (م ۷۲۴ھ) شرح ترمذی کے مقدمہ میں حافظ یوسف بن احمد سے نقل کرتے ہیں : ’’امام ابوعیسیٰ ترمذی کی کتاب ان پانچ کتابوں میں شامل ہے جن کی قبولیت اوراصول کی صحت پر علما، فقہا اور اکابر محدثین میں سے اہل حل و عقد اور اربابِ فضل و دانش نے اتفاق کیا ہے۔‘‘ اورشیخ ابراہیم بیجوری المواھب اللدنیّۃمیں طلبا حدیث کو مشورہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ہر طالب حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی جامع صحیح کامطالعہ کرنا چاہئے ،کیونکہ یہ کتاب حدیث و فقہ