کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 117
عبارات کو کانٹ چھانٹ، مسخ و تحریف، سیاق و سباق سے اُکھاڑ پچھاڑ، کتر بیونت اور خدع وفریب کا نشانہ بناتے ہوئے ’ثابت‘ کیاہے جن کی قلعی میری (زیربحث)کتاب میں کھولی گئی ہے۔ جبکہ میں نے پرویز صاحب کے متعلق اپنی کتاب میں جوکچھ لکھا ہے، وہ ایسے اٹل حقائق ہیں جنہیں دلائل و براہین اور شواہد و بینات سے ثابت کیا گیاہے اور جنہیں اگر کوئی عدالتی جج بھی اپنی تحقیق و تفتیش کی جولانگاہ بنائے تو وہ بھی کمپوزنگ کی اغلاط کے سوا حقائق وواقعات میں کوئی سقم نہیں پائے گا۔ بہرحال میں ’مفکر ِقرآن‘ صاحب کی اس صلاحیت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ بہرحال قلمی صلاحیتوں کے دھنی تھے۔ اُنہوں نے اپنے زورِ قلم سے گالیاں دینے کو بھی ایک فن بنا دیا ہے۔ جناب افتخار احمد بلخی مرحوم ان کی ’ادبی اور قرآنی خدمات‘ میں سے تیسری خدمت کاذکربایں الفاظ کرتے ہیں : ’’رہی وہ تیسری خدمت یعنی ذوق دشنام طرازی کی تسکین اور اس کے مقتضیات سے عہدہ برآ ہونے اور اخلاقی بضاعت کے افلاس پر فریب و ریا کے پردے ڈالے جانے کی خاطر جو گالیوں کو باضابطہ ایک ’فن شریف‘ بنا کر پیش کئے جانے کی ضرورت میں ، پوری سرگرمی کے ساتھ انجام دی جارہی ہے، وہ دراصل اس دورِ ترقی و تجدد کا ایک مرض ہے، جس کے متواتر وپیہم دورے پڑتے رہتے ہیں ۔ اس مرض کو آپ ’ملا خولیا‘ کے نام سے یاد کرسکتے ہیں ۔ اس مرض کی علت وہ احساسِ کمتری ہے جو تحت الشعور میں جاگزیں ہے، یا کتاب و سنت میں درک و بصیرت کے فقدان کا ایک ردّعمل ہے جو اس شکل میں ظہور پذیر ہوتا رہتا ہے۔[1] اور اس ’جہادِ اکبر‘ کے لئے اس ادارے نے جو اسلحہ فراہم کررکھے ہیں ، وہ ذاتی پر خاش، آتش حسد، گندگیاں اُچھالنے کی فن کاری، تضلیل و تحقیر، تضحیک و استہزا، کذب و افترا، اتہام ودشنام طرازی اور اقتدارِ وقت کواُکساکر، جبر و تشدد پرآمادہ کرنے کی سعی جیسے ’قرآنی‘ حربے ہیں ۔‘‘[2]