کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 116
کو ایک مقام پر خود طلوعِ اسلام نے بھی بیان کیا ہے، اس لئے میں مقالہ نگار اور دیگر وابستگانِ طلوع اسلام کے سامنے اسی اقتباس کا آئینہ پیش کئے دیتا ہوں ، تاکہ وہ خود بھی: ’’اپنی روش کا نفسیاتی تجزیہ کرکے دیکھیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کا نفس، دوسروں کی تنقیص میں اس لئے مصروف ہے تاکہ اس کی اپنی سہل انگاری ڈھکی رہے اور اسے چھپانے کے لئے، اُس نے بلندنصب العین کو آڑ بنا رکھا ہو، فریب ِنفس سے اکثر ایسا ہوا کرتا ہے۔‘‘[1] اور دریدہ د ہنی اور تلخ نوائی کے ساتھ علماے کرام کے خلاف، ان جھوٹے اور باطل الزامات کی بوچھاڑ… اس لئے بھی ہے کہ اس سے علما اور ان کے متبعین کے خلاف قلوبِ قارئین طلوعِ اسلام میں جو نفرت پیدا ہوتی ہے، وہ اُنہیں متحد رکھنے میں کام آئے، کیونکہ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کو دوسروں کے خلاف متحد رکھنے کے لئے ’ حب ِ علی‘ سے کہیں زیادہ مؤثر داعیہ ’بغض معاویہ‘ ہی کا داعیہ سمجھا جاتا ہے، لہٰذا اپنے فرقہ منکرین حدیث کے (جسے فرقہ کی بجائے مکتب ِفکر کا نام دیا جاتا ہے) تشخص کوقائم و برقرار رکھنے کے لئے علما کے خلاف نفرت انگیز، زہریلے اور معاندانہ پراپیگنڈے کی یلغار کو پیہم رواں دواں اور جواں رکھنا، ’مفکر قرآن‘ کی ایک مجبوری تھی۔ اور یہ ٹیکنیک انہوں نے بدقسمتی سے اُمت ِمسلمہ ہی کے بعض بے بصیرت پیشواؤں سے اخذ کی ہے، کیونکہ بقول پرویز صاحب : ’’فرقہ بندی کی نفسیات یہ ہیں کہ اپنے فرقہ کے لوگوں کے دل میں دوسروں کی طرف سے نفرت پیدا کی جائے۔ جس قدر نفرت شدید ہوگی، اتنا ہی فرقہ زیادہ مضبوط ہوگا۔‘‘[2] فرقے ہوں یا پارٹیاں ، ان کا جداگانہ تشخص، دوسرے فرقوں یا پارٹیوں کے خلاف جذباتِ نفرت کی بنا پرقائم رہتا ہے۔‘‘[3] اور طلوعِ اسلا م کی فائل گواہ ہے کہ پاکستان میں پرویز صاحب نے اپنی ساری عمر، علما کے خلاف، (بالخصوص)مولانامودودی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف جذبات نفرت کوبھڑکانے اور ہوا دینے ہی میں کھپا دی۔ 2. اور دوسری بات یہ کہ’مفکر ِقرآن‘ صاحب علما کے خلاف جوالزامات عائد کرتے رہے ہیں ، ان میں بعض قطعی بے اصل،بے بنیاد اور بے سروپا ہیں اور بعض کو اپنے مخالفین کی