کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 112
کہ کتابِ زیر بحث میں پرویز صاحب یاطلوعِ اسلام کے اقتباسات کو توڑ مروڑ کر یاسیاق وسباق سے علیحدہ کرکے پیش کیا گیاہے تو اس جھوٹ سے حقیقت نفس الامری بدل نہیں جائے گی، بلکہ کاذبین کے اکاذیب میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ اب سوال پیدا ہوتاہے کہ جھوٹے کو جھوٹا، خائن کو خائن، تضاد گو کو تضاد گو، بہتان تراش کو بہتان تراش، اخلاقی نامرد کو اخلاقی نامرد، حیا سے عاری شخص کو بے حیا اور خداخوفی سے بیگانہ فرد کو ناخدا ترس نہ کہا جائے تو پھر کیاکہا جائے؟ ’مفکر قرآن‘ صاحب ہی جواباً فرماتے ہیں : ’’ہم ایک شخص کو اپنے ذاتی تجربہ اوردلائل و شواہد کی بنا پر جھوٹا اور بددیانت پاتے ہیں ۔ ہمارا علیٰ وجہ البصیرت یقین ہے کہ وہ ایسا ہی ہے، ہم اسے دل میں ایسا سمجھتے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ہم ایسے شخص کاذکر کریں تو کیا اسے جھوٹا اوربددیانت کہیں یا سچا اورنہایت ایماندار؟ ہمارے نزدیک یہ انتہائی بددیانتی ہے اور منافقت ہے کہ جس شخص کو جھوٹا اوربے ایمان (بددیانت )سمجھتے ہیں ، اسے محض اس لئے سچا اور ایماندار کہیں کہ اسے جھوٹا کہنے سے اس کے مداحین بُرا مانیں گے۔‘‘[1] لہٰذا پرویز صاحب ہی کے اس فرمان کی رو سے بھی ہم یہ بددیانتی اور منافقت نہیں کرسکتے کہ جسے ہم علیٰ وجہ البصیرت ، جھوٹا، خائن، متناقض الکلام، بہتان تراش، شرم و حیا سے عاری،خدا خوفی سے فارغ اور آخرت کی جوابدہی سے بے پرواہ پاتے ہیں ، اسے ایسا نہ کہیں اور ایسا نہ لکھیں ۔ جھوٹے کو جھوٹا او ربددیانت کو بددیانت کہنا، بد اخلاقی نہیں بلکہ امر واقعہ کا اظہار ہے۔ متناقض الکلام او ربہتان تراش کوبہتان کہنا خلافِ تہذیب نہیں بلکہ اس کی واقعی حیثیت کو بیان کرنا ہے۔ شرم و حیا سے عاری، خدا خوفی سے فارغ اور آخرت کی جوابدہی سے بے پرواہ کو ایسا کہناگالی نہیں ، بلکہ حقیقت نفس الامری کا اعلان ہے۔ سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ پر ’عنایات‘ تاہم اگر آپ اسے گالیاں ہی قرار دینا چاہتے ہیں تو میں یہ عرض کروں گا کہ ان گالیوں سے کہیں زیادہ گالیاں خود پرویز صاحب علماے کرام کوبالعموم اور سید ابو الاعلیٰ مودودی