کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 111
ناخداترسی جن لوگوں کے طرزِ عمل میں صاف جھلک رہی ہو، ان کو اپنا مدمقابل بنانے کے لئے ہم کسی طرح تیار نہیں ہیں ۔ وہ اگر اپنی ساری عمر بھی ہم پر حملے کرنے میں کھپا دیں تو شوق سے کھپاتے رہیں ،ہم کبھی ان کا جواب نہ دیں گے۔
دوسری بات یہ ہے کہ قومی مسائل ہوں یا علمی مسائل؛ ان میں اگر آدمیت اور معقولیت کے ساتھ گفتگو کی جائے تو دلیل کا جواب دلیل سے دیا جاسکتا ہے۔اس طرح کے مباحثے مفید ونتیجہ خیز بھی ہوتے ہیں اور دلچسپ بھی۔ ان میں ہم احقاقِ حق اور افہام و تفہیم کے لئے بھی حصہ لینے کے لئے تیار ہیں او رطلب ِعلم اور طلب ِحق کے لئے بھی۔ ہمیں اپنی ہی بات منوانے پر اصرار نہیں ہے۔دوسرے کی بات معقول و مدلل ہو تو ہم کھلے دل سے اس کو مان لیں گے۔مگر جو لوگ دلیل سے کم اور گالی سے زیادہ کام لیں ،جو زبان کھولتے ہی پہلے آدمی کی عزت پر حملہ کریں ، جن کی تقریر کا اصل مدعا آدمی کو بدنیت او ربے ایمان ثابت کرنا ہو۔ اور جنہیں کوئی ذلیل سے ذلیل تہمت تراشنے میں تامل نہ ہو، ان کو کسی علمی یاقومی مسئلے میں بحث کا مخاطب بنانا کسی شریف اور معقول آدمی کے لئے تو ممکن نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی باتوں کا جواب دینے کی فرمائش جو لوگ ہم سے کرتے ہیں ان کی اس فرمائش سے ہمیں شبہ ہوتا ہے کہ وہ یا تو ہمیں بھی اسی قماش کا آدمی سمجھتے ہیں اور یہ ہماری توہین ہے یا وہ خود شرافت اور رذالت کا فرق نہیں سمجھتے اور یہ ان کی توہین ہے۔‘‘[1]
مقالہ نگار صاحب کو یہ اعتراض اور شکایت ہے کہ اس اقتباس میں جناب مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے پرویز صاحب اور طلوعِ اسلام کے لئے’نامرد ، بے حیا اور ناخدا ترس ‘ جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں ۔ اکبر الٰہ آبادی کے الفاظ درج ذیل ہی میں اس اعتراض کا جواب دیا جاسکتا ہے :
شیطان کو رجیم کہہ دیا تھا اک دن
اِک شور اُٹھا خلافِ تہذیب ہے یہ
یقینا طلوعِ اسلام اور پرویز صاحب کے طرزِ عمل میں نہ صرف یہی تینوں اوصاف بلکہ دیگر اوصاف بھی پائے جاتے ہیں ۔ اورمیری کتاب میں قدم قدم پر اس کے دلائل، براہین، شواہد اور ثبوت موجود ہیں ۔ اگر کوئی شتر مرغ کی طرح آندھی کے آثار دیکھ کر ریت میں سر چھپا لے یا اپنے قارئین کو یکطرفہ پراپیگنڈے کے خول میں بند کرکے، اُنہیں یہ جھوٹا اطمینان دلا دے