کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 109
دوسرا اعتراض
مقالہ نگار نے جو دوسرا اعتراض کیا ہے، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مکتب ِطلوع اسلام کی کرامت کے باعث یا پرویز صاحب کے فیضانِ نظر کے صدقے مقالہ نگار بھی دوسروں کی عبارات کو پیش کرتے وقت کتر بیونت سے کام لیتے ہیں ، بالخصوص ایسی عبارتوں کو پیش کرتے وقت جن سے طلوعِ اسلام کی فاسد ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے۔چنانچہ مقالہ نگار صاحب فرماتے ہیں :
’’مارچ ۱۹۵۲ء کے ترجمان القرآن میں ایک قاری نے جناب مودودی رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا…’’ابھی ابھی ایک پرچہ طلوعِ اسلام نظر سے گزرا۔ یہ پرچہ قریب قریب ان مضامین پر مبنی ہے جن میں آپ کی کتاب ’مرتد کی سزا، اسلامی قانون میں ‘کی قرآن کی رو سے تردید کی گئی ہے۔ … …… …… اس سلسلے میں ہم یہ جانناچاہتے ہیں کہ ’’آئندہ ماہ کے ترجمان القرآن میں آپ اس کا جواب لکھ رہے ہیں کہ نہیں ؟ اگر کسی دوسرے پرچے میں اس کا جواب لکھ رہے ہوں تو ہمیں آگاہ کردیں تاکہ جو لوگ، اس پرچے کو پڑھ کر آپ کی طرف سے بددل ہوگئے ہیں ان کاازالہ کردیا جائے۔‘‘ جناب مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے پرویز صاحب کے مقالے ’قتل مرتد‘ کا جواب تو شائع نہ کیا، البتہ مستفسر کے جواب میں پرویز صاحب کا نام لئے بغیر گالیوں کی بوچھاڑ کردی۔‘‘[1]
اس اقتباس میں نقطوں کے ذریعہ جس عبارت کو محذوف ظاہرکیا گیا ہے وہ چونکہ طلوعِ اسلام کی ذہنیت ِفاسدہ کی عکاس ہے، اس لئے اسے مقالہ نگار نے چھوڑ دیا ہے، از راہِ کرم قارئین کرام! اس حذف کردہ عبارت کو (جودرج ذیل ہے) نقطوں والی جگہ پررکھ کر پڑھ لیں ۔ پرچے میں جملے ایسے ہیں جیسے برسوں کی چھپی ہوئی دشمنی کا بدلہ نکال رہے ہوں ۔
اس پرچے کے آخر میں یعنی آخری صفحہ پر مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ کے ایک تازہ فتوے کی جسے مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی تائید حاصل ہے، تردیدبھی کی گئی ہے :
’’ہماری سمجھ میں یہ نہ آسکا کہ آخر کس ہستی کویہ لوگ مستند خیال کرتے ہیں ۔‘‘[2]
اب رہی ’گالیوں کی بوچھاڑ‘ تواس کے لئے یہ پورا اقتباس ملاحظہ فرما لیجئے :