کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 108
یہ الفاظ میرے اُس خط سے ماخوذ ہیں جومیں نے جنوری ۱۹۸۹ء میں محمد لطیف چوہدری ناظم ادارہ طلوعِ اسلام ،لاہور کو اس وقت لکھے تھے جب کہ اُنہوں نے محدث میں چھپنے والے میرے ایک مضمون پر اظہار قلق کرتے ہوئے اور مجھ پر جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ میں (قاسمی صاحب) نے پرویز صاحب کے لئے ’بے حیا ہے،بے شرم ہے‘ جیسے بازاری الفاظ استعمال کئے ہیں ، اُس وقت میں نے جواباً انہیں یہ لکھا تھا کہ
’’میرا مقالہ (جس پر آپ اعتراض فرما رہے ہیں )ماہنامہ محدث کے دسمبر ۱۹۸۸ء کے شمارے میں صفحہ ۵۰سے ۵۸ تک پھیلا ہوا ہے۔ کیا آپ اس میں کہیں یہ جملہ دکھا سکتے ہیں کہ’ ’پرویز بے شرم ہے، بے حیا ہے‘‘ اس بے سروپا الزام تراشی اور بہتان طرازی کے جواب میں میں اس کے سوا کیاکہہ سکتا ہوں کہ:
ظالم! جفائیں کر، مگر اتنا رہے خیال
ہم بے کسوں کا بھی کوئی پروردگار ہے!
میں پرویز صاحب کے فکر کی تردید میں ، ڈیڑھ دو سال سے ’محدث‘ میں مسلسل لکھ رہا ہوں ۔ میں نے کبھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ مضبوط دلائل اورقوی براہین کے ساتھ پرویز صاحب کی تردید کر ڈالنے کے بعد، ان کے متعلق ’بے شرم ہے،بے حیا ہے‘ جیسے سوقیانہ الفاظ بھی استعمال کروں۔‘‘[1]
اور یہ میری اُس زمانے کی عبارت ہے جب میں نے طلوعِ اسلام کی مکمل فائل کامطالعہ نہیں کیا تھا۔ اس وقت میں اگرچہ پرویز صاحب کو فکری طور پر راہِ راست پرنہیں سمجھتا تھا، لیکن اس کے باوجود میں اُنہیں قرآن کریم کامخلص، نیک نیت اور دیانتدار طالب علم سمجھتا تھا۔ لیکن بعد میں جب ان کی بددیانتیاں ، خیانت کاریاں ، کذب بیانیاں ، بہتان تراشیاں اور فریب کاریاں مجھ پر عیاں ہوتی چلی گئیں تو ان کے متعلق میرا یہ حسن ظن بھی جاتا رہا۔ اور اب جبکہ ان بہتان تراشیوں کی تیرافگنی کا نشانہ بننے سے عام علماے امت اور ائمہ فقہ تو رہے ایک طرف خود قرآن اور رسولِ قرآن بھی محفوظ نہ رہ پائے تو مجھے اس امر میں رتی برابر شک نہ رہا کہ وہ خوفِ خدا، شرم و حیا بلکہ (بقول محمد علی بلوچ صاحب) ایمان تک سے عاری ہیں ۔