کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 107
ہوسکی اورنہ ہی وہ کوئی اعتراض کرپائے۔ الحمد للہ علی ذلک حرف ِ آخر آخری باب کے بعد ’حرف ِآخر‘ کے زیر عنوان میں نے چند صفحات میں پوری کتاب کا خلاصہ بیان کیا ہے او ریہ بتایاہے کہ ’مفکر قرآن‘ جناب غلام احمد پرویز صاحب کن غیر اخلاقی اور غیر شائستہ پرویزی ہتھکنڈوں سے کام لے کر علماے کرام کو بالعموم اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کو بالخصوص، تذلیل و تضلیل اور استہزاء و تضحیک کا نشانہ بناتے رہے ہیں اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کس طرح پرویز صاحب کے معاندانہ اور زہریلے پراپیگنڈے کے جواب میں ، صبر و سکوت کا دامن تھامتے ہوئے اور إذا مرُّوا باللغو مرُّوا کرامًا کی روش اختیار کرتے ہوئے خدمت اسلام کی مثبت کاوشوں پرجمے رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں مولانامودودی رحمۃ اللہ علیہ کے انتہائی شائستہ طرزِ عمل کی وضاحت کے لئے، میں نے اُن کا ایک اقتباس بھی __ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا ایمان افروز جوابی طرزِ عمل __کی سرخی کے تحت پیش کیا ہے۔ مقالہ نگار کا ایک اعتراض ’حرفِ آخر‘ کے زیرعنوان میری مندرجہ ذیل عبارت کو (جو صفحہ ۳۸۳ پرموجود ہے) مقالہ نگار نے ہدفِ اعتراض بنایا ہے : ’’وہ(پرویزصاحب) مالی معاملات میں گڑ بڑ کے الزام کو، اپنی ذات سے دفع کرنے کے لئے، منافقین کے نام لے کر، خود اپنی طرف سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہی الزام عائد کرکے اس ذاتِ اقدس و اعظم کو، اپنی سطح پر گھسیٹ لانے میں شرم و عار محسوس نہیں کرتے۔‘‘[1] پرویز صاحب کے شرم و حیا کے حوالہ سے، اس عبارت کو مقالہ نگار برسوں پہلے لکھے ہوئے میرے ایک خط کی مندرجہ ذیل عبارت کے ساتھ، متضادو متصادم قرار دیتے ہیں : ’’میں نے کبھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ مضبوط دلائل اور قوی براہین کے ساتھ پرویز صاحب کی تردید کرڈالنے کے بعد اُن کے متعلق ’بے شرم ہے، بے حیا ہے جیسے سوقیانہ الفاظ بھی استعمال کروں ۔‘‘ (کتاب زیربحث صفحہ ۳۷۴)[2]