کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 106
اُنہیں پسند ہے، لیکن تصویر کادوسرا رُخ جسے وہ ناپسند کرتے ہیں ، پیش کرنے کو وہ اپنے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ ان لوگوں کی انتہائی کوشش یہی ہوتی ہے کہ قارئین کرام طلوعِ اسلام ، ان کے یک رُخے مطالعے پرہی اپنی رائے قائم کرکے بیٹھ جائیں اور کسی دوسرے شخص کا موقف،خواہ وہ کتنا ہی مضبوط قوی اور صحیح ہو، ان کے سامنے آنے ہی نہ پائے۔وہ اگر اپنے مخالف کے نقطۂ نظر کا تذکرہ کرتے بھی ہیں تو اُس (مخالف) کے الفاظ میں نہیں ، بلکہ خود اپنے الفاظ میں ، تغیر مفہوم کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اس باب میں ’اخلاقی نامردی‘ کی دونہایت صریح مثالیں بڑی تفصیل سے پیش کی گئی ہیں ۔ایک مثال وہ ہے جو’سنت کی آئینی حیثیت‘ پر مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور ڈاکٹر عبدالودود صاحب کے مابین مراسلت سے تعلق رکھتی ہے اور ابتداے مراسلت ہی میں ڈاکٹر صاحب نے پوری مراسلت کی اشاعت کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے مضبوط دلائل کو طلوعِ اسلام کے قارئین تک نہ پہنچنے دیا گیا اور ڈاکٹر عبدالودود صاحب ہی کے بعض خطوط کو یک طرفہ طور پر شائع کرڈالا گیا۔ آخر میں اس طرزِ عمل کو ’اخلاقی نامردی‘ کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔نیز اس مثال میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارات کو جس خیانت کارانہ انداز میں پیش کرکے، عبارات کے مصنف ہی کو دھوکہ دینے کی کوشش ڈاکٹر صاحب نے فرمائی تھی، اس کی بھی دس گیارہ مثالیں پیش کی گئی ہیں ۔
دوسری مثال، اس خط و کتابت پرمشتمل ہے جو میرے اور جناب محمدلطیف چوہدری، سابق ناظم ادارہ طلوع اسلام کے درمیان دسمبر ۱۹۸۸ء اور جنوری ۱۹۸۹ء میں ہوئی تھی۔ دونوں طرف کی مراسلت کو دیکھ کر ہرشخص خود اندازہ کرسکتا ہے کہ کس نے اپنے موقف کو اچھے انداز میں پیش کیا ہے او رکس نے اُوچھے انداز میں ۔ کس کا موقف دلائل و براہین سے مملو ہے اور کس کا افترا پردازیوں اور بہتان تراشیوں پرمشتمل ہے، پھر ساتھ ہی محمد لطیف صاحب نے یہ مطالبہ بھی کیاکہ ان کے ارسال کردہ مکتوب کو ’محدث‘ میں شائع کیاجائے۔ محدث نے تو دونوں طرف کی مراسلت کو مارچ ۱۹۸۹ء کے شمارہ میں شائع کردیا، لیکن صحافتی دیانت کا یہ تقاضا، طلوعِ اسلام پورا نہ کرسکا او راپنی’اخلاقی نامردی‘ کی روش پربرقرار رہا۔
بہرحال اس آخری باب میں بھی پیش کردہ ہماری کسی بات کی نہ تو تردید ہی مقالہ نگار سے