کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 104
غور فرمائیے کہ ’مفکر قرآن‘ صاحب کی وہ عقل عیار، جسے وہ اپنی ’قرآنی بصیرت‘ کا نام دیا کرتے تھے، مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے ایسے اقتباسات کو پیش کرتے ہوئے ’بعض ناگزیر حالات‘ کی شرط حذف کردیا کرتی تھی۔
بہرحال اس کے مقابلہ میں ، پرویز صاحب کا موقف یہ ہے کہ کسی بھی شخص کے لئے کسی بھی حال میں جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے۔ اسے مرجانا قبول کرلینا چاہئے لیکن جھوٹ ہرگز نہیں بولنا چاہئے،کیونکہ قرآن کسی حالت میں بھی جھوٹ کی اجازت نہیں دیتا۔ اس موقف کے حق میں ، پرویز صاحب بڑے دھڑلے سے ایک قاعدہ کلیہ بایں الفاظ پیش کیاکرتے تھے :
’’اگر سند قرآن رہے اور اس اُصول کوتسلیم کرالیا جائے کہ قرنِ اوّل کی تاریخ کا جو بیان قرآن کے خلاف ہے، وہ غلط ہے تو کسی کو اپنی فریب کاریوں اور کذب تراشیوں کے لئے دینی سند نہیں مل سکتی۔‘‘[1]
اس کے بعد میں نے ’مفکر قرآن‘ جناب غلام احمد پرویز صاحب کے چند صریح جھوٹ، واضح اکاذیب اور نمایاں اباطیل طلوعِ اسلام ہی کے لٹریچر سے پیش کرکے یہ لکھا ہے کہ
’’ظاہر ہے کہ ’مفکر قرآن‘ جناب پرویز صاحب سے بڑھ کر قرآن کو سند ماننے والا کون ہوسکتا ہے، اور ان سے بڑھ کر قرنِ اوّل کی تاریخ کو جو خلافِ قرآن ہو، غلط قرار دینے والاکون ہوسکتا ہے؟ لیکن پھر حیرت بالائے حیرت اور تعجب برتعجب ہے اس امر پر کہ خود ان کو اپنی فریب سازیوں ، بہتان تراشیوں ، خیانت کاریوں اور مغالطہ آرائیوں کے لئے (جن کا تفصیلی ذکر ابواب گزشتہ میں کیاجاچکا ہے) دینی سند کہاں سے مل گئی؟ کیونکہ کذب و زور اور دجل وفریب کی شاید ہی کوئی ایسی صورت ہو، جسے اُنہوں نے اختیارنہ کیاہو۔‘‘[2]
بہرحال اس باب میں مذکور کسی چیز کی تردید وتغلیط کی ہمت طلوعِ اسلام کے مقالہ نگار کو نہیں ہوسکی۔ الحمد للہ علی ذلک
باب نمبر ۱۰:دسویں باب کا عنوان ہے… ’داعی ٔ انقلاب کاذاتی کردار‘ یہ پورا باب مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’آئینۂ پرویزیت‘ سے ماخوذ ہے۔ اس باب میں طلوعِ اسلام ہی کی اُمت کے ایک فرد جناب محمد علی بلوچ صاحب نے شھد شاھد من أھلھا کامصداق بنتے