کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 103
عَمُون ان’قرآنی جواہر پاروں ‘ پرمطمئن رہتی ہے اور نتیجتاً بات کسی قطعی فیصلہ پر پہنچنے کی بجائے بھنور میں پھنسی ہوئی کاغذی ناؤ کی طرف وہیں کی وہیں رہتی ہے۔ رہے احادیث وسنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل تو وہ ان لوگوں کے نزدیک سرے سے حجت ہیں ہی نہیں ۔باقی رہ گئے فقہاء و مجتہدین کے افکار و نظریات، تو ان کو یہ لوگ بھلا کیا وزن دیں گے، جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو ردّ کردینے کے عادی ہوں ۔اس لئے ان لوگوں کے سامنے نہ قرآنی دلائل ہی کارگر ہیں اور نہ ہی حدیث و سنت کی کوئی دلیل پیش کرنا سود مند ہے، اورنہ فقہاء و علما کے ارشادات، ان لوگوں کی گردنیں ، اگر جھکتی ہیں تو صرف ’مفکر ِقرآن‘ کے مقولات و مقالات اور طلوعِ اسلام کی عبارات و اقتباسات ہی کے سامنے۔ان لوگوں کے نزدیک رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع شخصیت پرستی ہے، لیکن قرآن کے نام پر پرویز صاحب کی نت نئی بدلتی ہوئی آراء و اہوا کی اتباع’ خدا پرستی‘ ہے۔ اس لئے میں نے اس باب میں طلوع اسلام اور پرویز صاحب ہی کے لٹریچر سے وہ دلائل پیش کئے ہیں ، جو خود ’مفکر ِقرآن‘ کی تردید اور جملہ علماء سلف و خلف (بشمول مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ )کی تائید پر شاہد عدل ہیں ۔ مجھے خوشی ہے کہ اس باب میں مذکور دلائل و براہین کا بھی مقالہ نگار سامنا نہیں کر پائے اور تردید تو رہی ایک طرف، وہ اعتراض تک کی گنجائش نہ پاسکے۔ باب نمبر ۹ : باب نمبر۹ کاعنوان ہے… ’مفکر قرآن‘ کے اکاذیب و اباطیل‘… اس باب میں بھی، حکمت ِعملی کے مباحث کا وہ حصہ زیر بحث آیا ہے جوبعض ناگزیر صورتوں میں جوازِ کذب ‘ کے مباحث پر مشتمل ہے، مت بھولئے کہ بعض ایسی ناگزیر صورتوں میں جواس کذب پرجملہ علماء اوّلین و آخرین متفق ہیں ، لیکن ’مفکر قرآن‘ صاحب، ماضی و حال کے جملہ علماء و فقہاء کو نظر انداز کرکے صرف اور صرف مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ ہی کونشانہ بناتے ہوئے یہ تاثر اُچھالاکرتے تھے کہ صرف مودودی رحمۃ اللہ علیہ ہی کے نزدیک: ’’اقامت ِ دین جیسے اہم مقاصد کے لئے، اُصولوں میں لچک اور استثنا تو ایک طرف، ان کے لئے جھوٹ بولنا بھی نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہوجاتا ہے۔‘‘[1]