کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 102
عالم کفر میں تو ’مفکر قرآن‘ صاحب کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔
مقالہ نگار اس باب کی کسی مثال اور کسی دلیل کی بھی تردیدنہیں کر پائے۔ الحمد للہ
باب نمبر ۷: ساتویں باب میں ، جو ’تائید ِباطل کا رویۂ پرویز‘ کے زیرعنوان ہے، دو ایسی مثالیں پیش کی گئی ہیں جن میں ’مفکر قرآن‘ صاحب مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت اور عداوت وعناد کے جوش میں ہوش سے عاری ہوکر، دو باطل اُمور کی تائید پرتُل جاتے ہیں ۔ مقالہ نگار نہ تو ان دونوں مثالوں ، اور نہ ہی ان کے دلائل کی تردید کرسکے ہیں ۔الحمد اللّٰه علی ذلک
باب نمبر ۸: آٹھویں باب کا عنوان ہے۔ ’تخیلاتی مقصود اور حکمت ِعملی‘ اس باب میں ایک ایسی اُصولی حقیقت پیش کی گئی ہے، جس پر سلف و خلف اور ہر عصر و مصر کے علماء و فقہا متفق ہیں ۔ ہماری زبان میں ، اسے سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے:
’’ایک اُصول کو قائم کرنے پر ایسا اصرار، جس سے اس اُصول کی نسبت، بہت زیادہ اہم دینی مقاصد کونقصان پہنچ جائے، حکمت ِعملی ہی نہیں ، حکمت ِدین کے بھی خلاف ہے۔‘‘[1]
اسی اُصولی حقیقت کے تحت کئی ذیلی حقیقتیں ، مثل اختیار أہون البلیتین وغیرہ سمٹ آتی ہے۔ پرویز صاحب نے سلف و خلف کے جملہ علماء وفقہا کو نظر انداز کرکے، صرف مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ ہی کو اس ’جرم‘ کا مرتکب قراردے کر، اُنہیں جس قدر نشانہ بنایا ہے، اس قدر کسی اور مسئلہ پرنشانہ نہیں بنایا۔یہاں تک کہ اس مسئلہ کی آڑ میں مولانا مودودی کے خلاف ایک ایسی آتش جنگ بھڑکائی گئی،جس کے الاؤ کو زندہ و توانارکھنے کے لئے وابستگانِ طلو ع اسلام اب تک ایندھن ڈالتے چلے آرہے ہیں ۔ میں نے منکرین حدیث کے سرخیل کے خلاف یہ ’قلمی جنگ‘ اپنی سرزمین پر قرآن و سنت کے ہتھیاروں سے نہیں لڑی بلکہ ’مفکر قرآن‘ ہی کی گراؤنڈ پر ان ہی کے ہتھیاروں سے لڑی ہے۔ کیونکہ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ یہ لوگ قرآنی دلائل کو اپنی تاویلاتِ فاسدہ کا نشانہ بنا دیتے ہیں ، اور اس طائفہ کے اندھے مقلدین، ان’قرآنی تحریفات‘ کو بلند پایہ ’علمی نکات‘ قرار دے دیتے ہیں ۔ صاحب ِتردید اپنی جگہ مطمئن ہوجاتے ہیں کہ میں نے معترضین کے’قرآنی دلائل‘ کاجواب دے دیا ہے اوردوسری طرف کی قومِ