کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 101
مثالیں نہایت قوی دلائل و براہین کے ساتھ پیش کی گئی ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک کی بھی تردید کی جرأت ،کارپردازانِ طلوع اسلام میں سے کسی کو نہ ہوسکی اور مقالہ نگار بھی کوئی اعتراض نہ کرپائے۔ الحمداللّٰه علی ذلک
باب نمبر ۵: پانچویں باب کا عنوان ہے… ’جھوٹے الزامات، افتراء ات او ربہتانات‘ اس باب میں ، علماے کرام، علماے احناف، علماے اہل حدیث، سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، قرآنِ مجید، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اُن تُہم و بہتانات کو مفصل اورمدلل اندازمیں پیش کیا گیا ہے، جس کا ارتکاب ’مفکر قرآن‘ کرتے رہے ہیں ۔ اور حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جس طرح تضحیک واستخفاف کا نشانہ بنایا جاتا ہے،ایک مثال اس کی بھی پیش کی گئی ہے اور آخر میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں پرویز صاحب کے تین دعاوی کامختصر مگر مدلل جائزہ بھی لیا گیا ہے۔
اس پورے باب میں ’مفکر ِقرآن‘ کے جن بہتانات و افتراء ات کو جن دلائل و براہین کے ساتھ پیش کیا گیاہے، ان میں سے کسی ایک کی بھی تردید کی ہمت، مقالہ نگار کو نہیں ہوسکی۔ الحمد اللّٰه علی ذلک
باب نمبر ۶ : میری کتاب کے چھٹے باب کا عنوان ہے … ’ناپ تول کے دُہرے معیار‘ ۔ اس باب میں ، میں نے’مفکر قرآن‘ صاحب کے دُہرے معیار کی سات مثالیں پیش کی ہیں ، جن میں سے دو مثالیں تو وہ ہیں جوچوتھے باب میں مذکور ہیں ۔ ان ساتوں مثالوں کو دلائل سے واضح کیا ہے۔ مزید برآں اس باب میں اس امر پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ ’مفکر قرآن‘ صاحب نے (مغربی اقدار و اطوارِ معاشرت اور نظامِ اشتراکیت کی باہمی پیوندکاری کے نتیجہ میں ) جو ’انقلابی اسلام‘ قرآنِ مجید سے نچوڑا ہے، وہ چونکہ محمد رسول اللّٰه والذین معہ کے حقیقی اسلام کے مخالف اور ’مدمقابل اسلام‘ کی حیثیت سے سامراجی مقاصد کے لئے مفید و کارآمد ہے، اس لئے وہ کس طرح اپنی پشت پر مغربی حمایت و معاونت کو موجود پاتا ہے، اور مغرب کے لا دین سکالر، سیکولر دانشور، یہود و نصاریٰ کے احبار و رہبان، ’مفکر قرآن‘ کی ’قرآنی خدمات‘ پر اُنہیں خراجِ تحسین پیش فرماتے ہیں ، اور طلوعِ اسلام اور اس کے وابستگان، عالم کفر میں پرویز صاحب کی اس پذیرائی پر خوشی سے نہال ہیں کہ چلو عالم اسلام میں نہیں ، تو