کتاب: محدث شمارہ 301 - صفحہ 100
سے قطعی غیر متعلقہ عبارت کو ’اختلافی رائے‘ ظاہرکرکے جس علمی خیانت کا مظاہرہ فرمایا ہے، وہ تو ہم سب کے سامنے ہی ہے۔ پھر عدل و انصاف اور امانت و دیانت کا یہ معیار بھی ہمارے سامنے ہی ہے کہ مقالہ نگار صاحب ایک طرف تو مصنف ِکتاب پر ’علمی خیانت‘ کا من گھڑت اور جھوٹا الزام عائد کرتے ہیں اور دوسری طرف اُس ’مفکر قرآن‘ کی حمایت میں کاغذ سیاہ کرنے کے ساتھ ساتھ، اپنانامہ اعمال بھی سیاہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ،جس کی واضح علمی خیانتوں ، دروغ گوئیوں ، فریب کاریوں اور بہتان تراشیوں کو مصنف ِکتاب نے بے نقاب کر ڈالا ہے۔
بہرحال اب ظاہر ہے کہ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے کاتب ِوحی ہونے یانہ ہونے کے متعلق کوئی ایسا اختلافی نوٹ سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو اسے ان دلائل کی بناپر جو میری کتاب (زیر بحث)کے صفحہ۹۵ اور ۹۶ پر موجود ہیں ، اُنہیں پرویز صاحب کی طرف منسوب کرنا، کوئی بے جا بات نہیں ہے۔
باب نمبر ۳: تیسرے باب میں ’مفکر ِقرآن‘صاحب کے چند صریح جھوٹ‘ پیش کئے گئے ہیں ۔ ان میں سب سے پہلا جھوٹ وہ ہے جسے برسوں سے پھیلایا جارہاہے اور جس میں طلوعِ اسلام کے قارئین کو یہ جھوٹا یقین دلایا جاتا ہے کہ ’’پرویز صاحب برصغیر کے پہلے’قرآنی مفکر‘ تھے جن کے دلائل کے نتیجے میں (۱۹۳۵ء کے مقدمہ بہاولپور میں ) قادیانیوں کو سرکاری سطح پر کافر قرار دیا گیا تھا‘‘… میں نے ٹھوس دلائل کے ساتھ اپنی کتاب کے صفحہ ۱۱ سے ۱۲۶ تک، اس دروغ کی قلعی کھولی ہے اور مقالہ نگار کتاب میں موجود دلائل میں سے کسی ایک کی بھی تردیدنہیں کرپائے۔ پھر اس جھوٹ کے اندر بھی، کئی ذیلی جھوٹ داخل ہیں ۔ اس کے بعد ’مفکر قرآن‘ کا ایک اور سہ گونہ جھوٹ، مع ثبوت و دلائل پیش کیا گیاہے۔ جس کے پیکر ِزور سے ایک چوتھا جھوٹ بھی نمودار ہوا۔ اس باب میں مذکور، کسی واقعہ اور کسی دلیل کی تغلیط کی جرأت، مقالہ نگار کونہ ہوسکی۔ الحمد اللّٰه علی ذلک
باب نمبر۴: چوتھے باب کا عنوان ہے… ’مغالطہ آرائیاں ، خیانت کاریاں ، فریب انگیزیاں ‘ اس باب میں ’مفکر ِقرآن‘ صاحب کے دجل و فریب، خیانت و بددیانتی کی سات