کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 99
منع کیاگیا ہے جبکہ خالہ بھانجی اورپھوپھی بھتیجی کو ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنے کے بارے میں کوئی حکم قرآن میں مذکور نہیں۔اس کا حکم بھی ہمیں سنت میں ملتا ہے۔ اسی طرح قرآنِ مجید ہمیں حکم دیتا ہے کہ خریدوفروخت کرتے وقت گواہ بنالو۔اب اگر ہم خوارج اور معتزلہ کے استدلال کو صحیح مان لیں تو وہ تمام خریدوفروخت ناجائز ہوجاتی ہے جو دن رات ہماری دوکانوں پرگواہوں کی غیر موجودگی میں ہوتی ہے۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں ، اس طرح کی بے شمار مثالیں ہمیں قرآن و سنت میں ملتی ہیں۔[1] ٭ یہ بھی کہا جاتاہے کہ سنگساری کی سنت ِمذکورہ کے تمام فیصلے سورۂ نور کی مذکورہ آیت کے نزول سے پہلے کے ہیں لیکن یہ سوال بھی محض ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔احادیث کے مطالعے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ سورۃ النور کی مذکورہ آیت کے نزول کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنگسار کرنے کا حکم نافذ فرمایا۔ سورۂ نور کا نزول ۵ ہجری میں غزوۃ بني المُصطلق کے بعد اس وقت ہوا جب بعض منافقین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پرتہمت لگائی تھی جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں رجم کا جو سب سے پہلا واقعہ ہوا تھا، وہ یہودیوں کا واقعہ تھا جو ۸ ہجری میں فتح مکہ کے بعد پیش آیا۔ ٭ اس سلسلہ میں ایک خیال یہ بھی ظاہر کیاجاتاہے کہ مذکورہ آیت میں بیان کردہ سزا عام ہے جس میں شادی شدہ یا غیر شادی شدہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اگر مذکورہ بالا احادیث کی بنیاد پر سنگساری کی سزا کو حکم شرعی مان لیاجائے تو اس سے لازم ہوجائے گاکہ حدیث نے قرآنِ کریم کی اس آیت کومنسوخ کردیا نیز یہ خیال کہ سنت میں شادی شدہ زانی کے لئے سنگساری کی جو سزا تجویز کی گئی ہے وہ سورۃ النور کی مذکورہ آیت سے متصادم ہے ، بھی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سورۃ النورکی مذکورہ آیت عام ہے اور سنت میں مذکور حکم خاص صورت کے ساتھ مخصوص ہے۔ اورفقہ کا اُصول یہ ہے کہ جہاں ایک جگہ حکم عام ہو اور دوسری جگہ خاص تو اُن کو نہ تو باہم متصادم سمجھا جائے گا اورنہ ہی یہ کہا جائے گا کہ ایک قانون نے دوسرے قانون