کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 98
٭ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اولاد اس کی جس کا بستر ہو اور زانی کے لئے پتھر ہیں۔‘‘[1]
خلفاے راشدین کا عمل اور فقہاے اُمت کا اتفاق : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے بعد چاروں خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم نے نہ صرف اس سزا کے شرعی ہونے کا باربار اعلان کیا بلکہ اپنے اپنے دور میں یہ سزا نافذ بھی کی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم میں یہ مسئلہ بالکل متفق علیہ تھا۔کسی ایک شخص کا بھی کوئی قول ایسا موجود نہیں ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکے کہ کسی کو اس سزا کے ثابت شدہ حکم شرعی ہونے میں کوئی شک تھا۔ ان کے بعد بھی تمام زمانوں اور ملکوں کے فقہائے اُمت اس بات پر متفق رہے ہیں کہ جرمِ زنا پر شادی شدہ شخص کے لئے سنگساری کی سزا سنت ِثابتہ ہے اور کوئی صاحب ِعلم اس کا انکار نہیں کرسکتا۔
اُمت ِمسلمہ کی پوری تاریخ میں سواے خوارج اور بعض معتزلہ کے کسی نے بھی اس کا انکارنہیں کیا اور اُن کے انکار کی وجہ بھی یہ نہیں تھی کہ وہ اسے سنت ِمتواترہ سے ثابت نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کا کہنا یہ تھا کہ چونکہ مذکورہ آیت میں ہر طرح کے زانی کی سزا ۱۰۰ کوڑے مقرر کی گئی تھی، لہٰذا شادی شدہ زانی کے لئے الگ سزا تجویز کرنا قانونِ خداوندی کے خلاف ہے۔حالانکہ اُنہوں نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن کے الفاظ جو وزن رکھتے ہیں ، وہی وزن ان کی اس تشریح کا بھی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ سے ثابت ہے۔
خوارج اور بعض معتزلہ کی دلیل کودرست نہیں کہا جاسکتا کیونکہ بے شمار قرآنی احکامات ایسے ہیں جن کی تشریحہ میں سنت سے ملتی ہے۔مثال کے طور پر قرآن مجید میں چو رکے ہاتھ کاٹنے کا حکم مطلق ہے اورکہیں بھی چور ی شدہ چیز کی حد مقرر نہیں کی گئی۔ اس کی تشریح ہمیں سنت سے ملتی ہے۔ اگر ہم سنت میں مذکور تشریح کو درخورِ اعتنانہ سمجھیں تو ایک سوئی یا ایک بہت معمولی چیز کی چوری پربھی ہمیں چور کا ہاتھ کاٹنا پڑے گا۔اسی طرح قرآنِ مجید میں محرمات کے ذکر میں صرف رضاعی بہن اوررضاعی ماں کو محرم قرار دیا گیا ہے جبکہ رضاعی بیٹی کی حرمت سنت میں مذکور ہے۔اسی طرح قرآن میں صرف دو بہنوں کو ایک شخص کے نکاح میں جمع کرنے سے