کتاب: محدث شمارہ 300 - صفحہ 96
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ مخصوص معاشرتی پس منظر کی وجہ سے پاکستان کی خواتین پوری طرح آزاد اور خود مختار نہیں ہوتیں ، اس لئے ان غیر مساوی حالات میں زنا کے مقدمات میں عورت کوملزم بنانا درست نہیں ! اسے ایک عمومی اُصول نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ اگر اسے عمومی اُصول بنایا جائے تو ایسی صورت میں معاشرے کو برائیوں سے بچانا ممکن نہیں رہتا اور بدکردار لوگوں کو اس جرم کے ارتکاب کے لئے ایک جواز ہاتھ آجاتا ہے۔نیز محض جنس کی بنیاد پر ایک فریق کو جرم سے مستثنیٰ قرار دینا کیونکر درست ہوسکتا ہے۔ یہ خود ایک امتیازی سلوک ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا اور یہ آئین پاکستان کی بھی خلاف ورزی ہے۔ تاہم عدالتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ کسی بھی مقدمہ کی سماعت کے دوران اس بات کا خیال رکھیں کہ آیا یہ جرم عورت کی آزاد مرضی سے وقوع پذیر ہوا ہے یا اس میں عورت پر کسی بھی درجے کا جبر موجود تھا۔
٭ کیا سنگساری کی سزا غیر اسلامی ہے ؟
ایک رائے یہ ہے کہ اس آرڈی نینس میں بیان کردہ سنگساری کی سزا غیر قرآنی اور غیراسلامی ہے کیونکہ قرآنِ مجید کی جس آیت میں جرمِ زنا پر حد کی سزا مقرر کی گئی ہے، اس میں صرف کوڑوں کی سزا مذکور ہے۔[1] ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِأَۃَ جَلْدَۃٍ ﴾ (سورۃ النور :۲)
’’زانی عورت اور زانی مرد ہر ایک کو ۱۰۰، ۱۰۰ کوڑے مارو۔‘‘
یہ بات صحیح ہے کہ مذکورہ آیت میں جرمِ زنا کی سزا سنگسار کرنا نہیں ہے بلکہ سو کوڑے مارنا ہے لیکن سنگسار کرنے کی سزا کا جواز ہمیں سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔بکثرت معتبر روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف قولاً شادی شدہ زانی کی سزا سنگساری تجویز فرمائی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً متعدد مقدمات میں یہی سزا نافذ بھی فرمائی۔ اگرسنگساری سے متعلق احادیث کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سمیت